پاکستان کے مرکزی بینک نے تمام کمرشل بینکوں اور مالیاتی اداروں کو ایران کے ساتھ لین دین کی اجازت دے دی ہے جس کے بعد اب دونوں ممالک کے درمیان باقاعدہ تجارت بحال ہو جائے گی جو عالمی پابندیوں کے باعث کئی سال سے منقطع تھی۔
خبررساں ادارے ’روئیٹرز‘ کے مطابق ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق عائد بیشتر عالمی پابندیاں جنوری میں ہٹائے جانے کے بعد اس ماہ کے اوائل میں بین الاقوامی لین دین کے نیٹ ورک سوئفٹ نے کئی ایرانی بینکوں کو اپنے نظام میں شامل کیا، جس کے بعد اب وہ غیر ملکی بینکوں کے ساتھ لین دین شروع کر سکتے ہیں۔
ایران پر عالمی پابندیاں سخت ہونے کے بعد ایرانی بینکوں کو مارچ 2012 میں بیلجیئم میں قائم بین الاقوامی لین دین کے سوئفٹ نظام سے خارج کر دیا گیا تھا۔
پاکستان کی طرف سے گزشتہ ہفتے یہ بیان سامنے آیا تھا کہ اسلام آباد نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد کے تحت ایران پر عائد پابندیاں اُٹھا لی ہیں۔
مرکزی بینک نے جمعرات کو ایک بیان میں کہا کہ حکومت پاکستان کی طرف سے ایران پر عائد پابندیاں ہٹانے کے فیصلے کے بعد ’’اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے بینکوں اور مالیاتی اداروں کو مطلع کر دیا ہے کہ ایران پر عائد پچھلی پابندیاں ہٹا دی گئی ہیں اور قرارداد کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے (ایران کے ساتھ) عمومی کارباری سرگرمیاں شروع کی جا سکتی ہیں۔‘‘
بیان میں اس امید کا بھی اظہار کیا گیا کہ ’’پابندیاں ہٹائے جانے اور ایران اور پاکستان کے درمیان بینکاری تعلقات کی بحالی سے دونوں ممالک کے درمیان عمومی تجارتی اور کاروباری سرگرمیاں بحال ہوں گی۔‘‘
روئیٹرز نے ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان کے حوالے سے کہا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان 2008-2009 میں تجارت کا حجم 1.32 ارب ڈالر تھا جو 2010-2011 میں کم ہو کر 43 کروڑ 17 لاکھ ڈالر رہ گیا۔
مگر ایران پر پابندیاں عائد ہونے سے وہاں کی مصنوعات کی غیر قانونی تجارت خاصا منافع بخش کاروبار بن گیا۔
پاکستان کے اہم صنعت کار اور پاکستان افغانستان جوائنٹ چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے شریک صدر محمد زبیر موتی والا نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں حکومت پاکستان اور اسٹیٹ بینک کی طرف سے ایران کے ساتھ تجارتی تعلقات کی بحالی کے اقدامات کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے اقتصادی مسائل کا واحد حل علاقائی تجارت کا فروغ ہے۔
’’ہماری ایران کے ساتھ آج بھی سرحد پار تجارت تو جاری ہے مگر سرحد پار تجارت میں تاجروں اور صنعتکاروں کو بڑی تکلیفوں کا سامنا ہے۔ ہمیں (دوسرے فریق) پر اعتماد کرنا پڑتا ہے۔ اگر ایران کی کرنسی کی قدر کم ہو تو ہماری ادائیگیاں رک جاتی ہیں، برآمدات متاثر ہوتی ہیں۔ اگر سرحد پار تجارت کی جگہ بینکاری ذرائع سے تجارت ہو تو ہم ایران کے ساتھ اپنی تجارت کو بہت بڑھا سکتے ہیں۔‘‘
پاکستان سے ایران کو بھیجی جانے والی برآمدات میں باسمتی چاول، سنگترہ، پلاسٹک اور ٹیکسٹائل مصنوعات شامل ہیں جبکہ ایران سے پیٹرولیم مصنوعات، مائع قدرتی گیس اور خشک میوے پاکستان درآمد کیے جاتے ہیں۔
ہمسایہ ملک ہونے کی وجہ سے زمینی راستے کے ذریعے ایران سے مال کی برآمد اور درآمد بہت آسان اور کم قیمت ہے اور باقاعدہ تجارتی روابط بحال ہونے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان کئی دیگر مصنوعات کی تجارت اور ہنر مند افرادی قوت کا تبادلہ شروع ہونے کی توقع ہے۔