وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے معاون خصوصی علی جہانگیر صدیقی ان کی حکومت ختم ہونے سے تین دن پہلے امریکا میں پاکستان کے نئے سفیر کی حیثیت سے واشنگٹن ڈی سی پہنچ رہے ہیں۔
عام طور پر کسی ملک میں پاکستانی سفیر کی تقرری کئی سال کے لیے کی جاتی ہے۔ اسکے لیے طویل تجربہ رکھنے والے سفارت کاروں کو ترجیح دی جاتی ہے۔ بعض اوقات سیاست دانوں کو بھی سفیر مقرر کیا جاتا ہے۔ امریکا جیسے بڑے ملک میں یہ تقرر اور بھی اہمیت رکھتا ہے۔
علی جہانگیر صدیقی اپنے پیشرو اعزاز احمد چودھری کی طرح کریئر ڈپلومیٹ نہیں۔ ان کا تعلق بینکاری کے شعبے سے ہے اور وہ کئی مالیاتی اداروں میں اہم عہدوں پر کام کر چکے ہیں۔ وہ بطور سفیر کتنا عرصہ خدمات انجام دے سکیں گے، شاید انھیں خود بھی اندازہ نہیں ہوگا۔
پاکستان اور امریکا کے درمیان تعلقات میں پیچیدگیوں کے موقع پر اور عام انتخابات سے دو ماہ پہلے علی جہانگیر صدیقی کی تقرری بعض لوگوں کے لیے ناقابل فہم ہے۔
سابق سفیر شاہد امین کے مطابق قاعدہ یہ ہے کہ حکومت تبدیل ہونے کے بعد نان کریئر سفارت کار فارغ تصور کیے جاتے ہیں۔ اگر حکومت الیکشن جیت جائے تب بھی اسے سفیروں کا تقرر دوبارہ کرنا پڑتا ہے۔ جولائی کے آخر میں عام انتخابات ہونے ہیں۔ ایسے موقع پر نئے سفیر کی تقرری حیران کن ہے۔ ممکن ہے کہ وہ امریکی صدر کو اپنی اسناد بھی پیش نہ کر پائیں اور حکومت بدل جائے۔
امریکا نے اس ماہ پاکستانی سفارت کاروں پر پابندی عائد کی ہے کہ وہ اپنے سفارت خانے یا قونصلیٹ سے پچیس میل کے دائرے میں رہنے کے پابند ہیں۔ خارجہ امور کے ماہرین سوال اٹھارہے ہیں کہ ڈھائی ماہ اور پچیس میل کے دائرے میں قید سفیر کیا کارنامہ انجام دے سکتا ہے؟
اٹلانٹک کونسل سے وابستہ تجزیہ کار شجاع نواز کہتے ہیں کہ یہ کام صرف ایک شخص کے ہاتھ میں نہیں ہوتا۔ پاکستان کی حکومت اگر مستحکم ہوگی اور ملک میں ٹھیک فیصلے کرے گی تو اس کا اپنے سفیر کے ذریعے امریکا کے ساتھ ڈائیلاگ بہتر ہوگا۔ لیکن اگر حکومت کمزور ہوئی تو جتنا بھی اچھا سفیر ہو، اس کا کام کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ علی جہانگیر صدیقی کے اگر واشنگٹن میں کچھ تعلقات ہیں تو ممکن ہے کہ وہ ان کا فائدہ اٹھا سکیں۔
پاک امریکا تعلقات پر نظر رکھنے والے سینئر صحافی انور اقبال کہتے ہیں کہ علی جہانگیر صدیقی کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے داماد جیرڈ کشنر سے تعلقات ہیں۔ لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ سابق صدر اوباما کے کئی پاکستانیوں سے اچھے تعلقات تھے، ان کی والدہ پاکستان میں ملازمت کرتی رہیں، اس سے زیادہ کسی کا پاکستان سے تعلق نہیں ہو گا۔ لیکن ان کی پالیسیوں میں پاکستان کے لیے نرمی نہیں تھی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکا میں تعلقات کی بنیاد پر فیصلے نہیں ہوتے۔
انور اقبال نے کہا کہ اس وقت پاکستان اور امریکا کے تعلقات کشیدہ ہی نہیں ، بہت کشیدہ ہیں۔ امریکی دانشور مارون وائن بوم نے کہا تھا کہ اب دونوں ملک حریف نہیں ہیں بلکہ دشمنی کی طرف جا رہے ہیں۔ ان حالات میں ایک شخص دو سال سے یہاں تھا، جس کے تعلقات بن گئے تھے، اسے رہنے دینا چاہیے تھا۔