اسلام آباد —
پاکستان نے ایک بار پھر کہا ہے کہ سارک تنظیم کا رکن ملک ہونے کی حیثیت سے وہ بنگلہ دیش میں سیاسی تبدیلیوں پر نظر رکھے ہوئے ہے۔
ڈھاکا میں گزشتہ ہفتے جماعت اسلامی کے رہنما عبدالقادر ملا کو پھانسی دیے جانے کے خلاف پاکستانی پارلیمان کے ایوان زیریں میں قرارداد منظور کیے جانے پر بنگلہ دیش نے اپنے ہاں تعینات پاکستانی ہائی کمشنر کو طلب کر کے احتجاج کیا تھا۔
بنگلہ دیش کے عہدیداروں نے پاکستانی سفیر سے کہا تھا کہ عبدالقادر ملا کو پھانسی دینا اس کا اندرونی معاملہ ہے۔
لیکن بدھ کو پاکستانی دفتر خارجہ کی طرف سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا کہ گو کہ کسی بھی ملک کے معاملات میں مداخلت پاکستان کی پالیسی نہیں ہے لیکن وہ بنگلہ دیش میں عدم استحکام کا باعث بننے والے حالیہ مقدمات پر بین الاقوامی برادری اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے اٹھائے گئے تحفظات پر نظر رکھے ہوئے ہے۔
بنگلہ دیش کے ذرائع ابلاغ کے مطابق ڈھاکا میں پاکستانی ہائی کمیشن کے باہر لوگوں نے پاکستان کے خلاف احتجاج بھی کیا۔
عبدالقادر ملا کی پھانسی پر نہ صرف پاکستان کے سیاسی حلقوں بلکہ دنیا کے مختلف ممالک اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے ردعمل کا اظہار کیا گیا۔
خصوصاً 1971ء کے جنگی جرائم کے مقدمات کی سماعت کرنے والے خصوصی ٹربیونل کے طریقہ کار اور کارکردگی پر تحفظات کا اظہار کیا جارہا ہے۔
1947ء میں تقسیم ہند کے بعد بنگلہ دیش کا علاقہ مشرقی پاکستان کہلاتا تھا اور یہ پاکستان کا حصہ تھا لیکن 1971 میں ہونے والی ایک جنگ کے نتیجے میں یہ الگ ملک کے طور پر معرض وجود میں آیا۔
بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ واجد کی حکومت نے 2010ء میں ایک خصوصی ٹربیونل تشکیل دیا جو 1971ء کی جنگ میں مختلف جنگی جرائم کے مبینہ مرتکب افراد کے خلاف مقدمات کی سماعت کرتا چلا آرہا ہے۔ اس ٹربیونل نے عبدالقادر ملا کو جنگی جرائم کے الزام میں عمر قید کی سزا سنائی تھی جسے ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے سزائے موت میں تبدیل کر دیا تھا۔
ڈھاکا میں گزشتہ ہفتے جماعت اسلامی کے رہنما عبدالقادر ملا کو پھانسی دیے جانے کے خلاف پاکستانی پارلیمان کے ایوان زیریں میں قرارداد منظور کیے جانے پر بنگلہ دیش نے اپنے ہاں تعینات پاکستانی ہائی کمشنر کو طلب کر کے احتجاج کیا تھا۔
بنگلہ دیش کے عہدیداروں نے پاکستانی سفیر سے کہا تھا کہ عبدالقادر ملا کو پھانسی دینا اس کا اندرونی معاملہ ہے۔
لیکن بدھ کو پاکستانی دفتر خارجہ کی طرف سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا کہ گو کہ کسی بھی ملک کے معاملات میں مداخلت پاکستان کی پالیسی نہیں ہے لیکن وہ بنگلہ دیش میں عدم استحکام کا باعث بننے والے حالیہ مقدمات پر بین الاقوامی برادری اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے اٹھائے گئے تحفظات پر نظر رکھے ہوئے ہے۔
بنگلہ دیش کے ذرائع ابلاغ کے مطابق ڈھاکا میں پاکستانی ہائی کمیشن کے باہر لوگوں نے پاکستان کے خلاف احتجاج بھی کیا۔
عبدالقادر ملا کی پھانسی پر نہ صرف پاکستان کے سیاسی حلقوں بلکہ دنیا کے مختلف ممالک اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے ردعمل کا اظہار کیا گیا۔
خصوصاً 1971ء کے جنگی جرائم کے مقدمات کی سماعت کرنے والے خصوصی ٹربیونل کے طریقہ کار اور کارکردگی پر تحفظات کا اظہار کیا جارہا ہے۔
1947ء میں تقسیم ہند کے بعد بنگلہ دیش کا علاقہ مشرقی پاکستان کہلاتا تھا اور یہ پاکستان کا حصہ تھا لیکن 1971 میں ہونے والی ایک جنگ کے نتیجے میں یہ الگ ملک کے طور پر معرض وجود میں آیا۔
بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ واجد کی حکومت نے 2010ء میں ایک خصوصی ٹربیونل تشکیل دیا جو 1971ء کی جنگ میں مختلف جنگی جرائم کے مبینہ مرتکب افراد کے خلاف مقدمات کی سماعت کرتا چلا آرہا ہے۔ اس ٹربیونل نے عبدالقادر ملا کو جنگی جرائم کے الزام میں عمر قید کی سزا سنائی تھی جسے ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے سزائے موت میں تبدیل کر دیا تھا۔