فلسطینیوں نے بین الاقوامی عدالت برائے جرائم میں شمولیت اختیار کرنے کے لیے باضابطہ طور پر دستاویزات اقوام متحدہ میں جمع کرادیے ہیں، جس اقدام کے ذریعے وہ اسرائیل کے خلاف جنگی جرائم کے ارتکاب کے الزامات لگانے کا اختیار کرسکتے ہیں۔
اقوام متحدہ میں فلسطینی سفیر، ریاض منصور نے جمعے کے روز یہ دستاویز اقوام متحدہ کے ایک اعلیٰ اہل کار، قانونی امور کے معاون سکریٹری جنرل، اسٹیفن میتھیاس، کے پاس جمع کرائے۔
منصور نے کہا کہ یہ ایک اہم پیش رفت ہے، جو فلسطینی عوام کے خلاف مبینہ جرائم سے متعلق انصاف طلبی کے لیے ضرور ی ہیں۔
اُنھوں نے یہ بھی کہا کہ فلسطینی یہ کوشش کر رہے ہیں کہ بین الاقوامی عدالت برائے جرائم سے ’مؤثر بہ ماضی‘ نوعیت کا اختیار حاصل ہو، جن کے احاطے میں وہ جرائم آسکیں، جن کا مبینہ ارتکاب گذشتہ برس غزا کی جنگ کے دوران ہوا۔
فلسطینی صدر محمود عباس نے اِن دستاویزات پر دستخط کردیے ہیں، جس سے قبل اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے گذشتہ ہفتے ایک قرارداد مسترد کردی تھی، جس میں فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے اسرائیل کے زیر قبضہ علاقوں سے انخلاٴ کے لیے تین برس کی ’ڈیڈلائن‘ مقرر کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔
فلسطینیوں کی طرف سے آئی سی سی میں شمولیت کی درخواست کے بعد، اسرائیلی وزیر اعظم بینجامن نیتن یاہو نے نامعلوم اقدام کی دھمکی دی ہے۔
بین الاقوامی عدالت برائے جرائم نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی طرف سے فلسطین کو مبصر کا درجہ دینے کے اقدام کو تسلیم کیا ہے۔
فلسطینوں کی طرف سے دستاویزات پیش کرنا آئی سی سی کی رکنیت کے حصول کے لیے ایک باضابطہ کارروائی ہے، جس میں کم از کم 60 دِن لگ جائیں گے۔
امریکہ نے کہا ہے کہ اِس فلسطینی اقدام پر اُسے شدید تکلیف پہنچی ہے۔
ایک امریکی اہل کار کا کہنا ہے کہ یہ ایک ’بے مقصد‘ عمل ہے، جس سے آزاد ریاست کی فلسطینیوں کی خواہشات کو تقویت نہیں مل سکتی۔ بقول اہل کار، آئی سی سی کا رُکن بننے سے، دراصل فلسطینی دوسروں کی طرف سے اپنے اوپر جنگی جرائم کے ارتکاب کے الزامات لگنے کا دروازہ کھول رہے ہیں۔
اقوام متحدہ نے یہ عدالت اس مقصد سے قائم کی ہے تاکہ نسل کشی، جنگی جرائم اور بنی نوع انسان کے خلاف جرائم کے مشتبہ الزامات پر مقدمہ چلایا جا سکے۔ عدالت کے پاس گرفتاری کا کوئی اختیار نہیں۔ تاہم، وہ گرفتاری کے وارنٹ جاری کر سکتی ہے، جس سے مشتبہ ملزم کے لیے سفر کرنا مشکل معاملہ بن سکتا ہے۔