اقوامِ متحدہ میں فلسطینی سفیر ریاض منصور کہتے ہیں کہ مملکت بننے کا ہدف حاصل کرنے اور اقوام متحدہ کا رکن بننے کے لیے ان کی حکومت کے پاس کئی راستے ہیں۔ آج کل فلسطین کو مبصر کا درجہ حاصل ہے۔ ایک طریقہ جس پر سنجیدگی سے غور کیا جا رہا ہے ، یہ ہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں رکن ممالک سے فلسطین کو تسلیم کرانے کی کوشش کی جائے ۔ سفیر منصور نے جمعرات کو رپورٹروں کو بتایا کہ اقوام متحدہ کے 192 ارکان میں سے تقریباً 120 نے کہا ہے کہ وہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کر لیں گے۔ جنرل اسمبلی میں بعض قراردادوں کی منظوری کے لیے مطلوبہ دو تہائی اکثریت سے یہ تعداد کچھ کم ہے ۔
امریکن یونیورسٹی کے پروفیسر ڈیوڈ باسکو کہتے ہیں کہ تسلیم کرنے کا مطلب اقوام متحدہ کی رکنیت نہیں ہے۔’’لیکن اقوامِ متحدہ کے منشور سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ فلسطینی صرف جنرل اسمبلی کے ووٹ کی بنیاد پر ، سلامتی کونسل کی منظوری کے بغیر ،اقوام متحدہ میں داخل نہیں کیے جا سکتے۔ اقوام متحدہ کے منشور میں جو طریقہ درج ہے وہ یہ ہے کہ سلامتی کونسل سفارش کرتی ہے اور پھر جنرل اسمبلی منظوری دیتی ہے ۔ سلامتی کونسل کی سفارش کے بغیر، جسے ویٹو کیا جا سکتا ہے، کوئی ملک باقاعدہ رکن نہیں بن سکتا۔‘‘
امریکہ کی مخالفت کی وجہ سے سلامتی کونسل کی سفارش کا امکان بہت کم ہے۔ لیکن ایمبیسڈر منصور کہتے ہیں کہ جتنے زیادہ ملک فلسطینی مملکت کو تسلیم کریں گے، امریکہ کے لیے دنیا کے ملکوں کے کلب میں اس کی رکنیت کو ویٹو کرنا اتنا ہی مشکل ہو گا۔’’ہم کوشش کر رہے ہیں کہ بہت سے ملک فلسطین کو 1967 کی سرحدوں کی بنیاد پر تسلیم کر لیں۔ ہمیں 130 سے 140 کی حد سے آگے بڑھنا ہے ۔ اگر ہم دو تہائی سے زیادہ اکثریت حاصل کر لیں۔اور ہم جنرل اسمبلی کی دو تہائی اکثریت ستمبر سے پہلے حاصل کر لیں گے، تو پھر ہم یہ جاننا چاہیں گے کہ سلامتی کونسل میں ، ایک مملکت کی حیثیت سے ہمیں قوموں کی برادری میں شامل ہونے کے ہمارے قدرتی اور قانونی حق سے محروم کرنے کے لیے کیا دلیل پیش کی جائے گی۔‘‘
ہو سکتا ہے کہ فلسطینیوں نے یونٹنگ فار پیس ریزولوشن سے بھی توقعات وابستہ کر رکھی ہوں۔ یہ قرارداد 1950 میں منظور کی گئی تھی۔ پروفیسر باسکو کہتے ہیں کہ امریکہ نے یہ قرارداد اس لیے پیش کی تھی کہ سلامتی کونسل میں سوویت یونین کی وجہ سے جو تعطل پیدا ہو جاتا تھا اس کا مداوا کیا جائے ۔’’یہ ترکیب اس لیے نکالی گئی تھی کہ اگر سوویت ویٹو کی وجہ سے سلامتی کونسل مفلوج ہو کر رہ جاتی ، تو جنرل اسمبلی کسی مسئلے کو لے کر اس پر فیصلہ کر سکتی تھی۔ اس طریقے کی قانونی حیثیت کے بارے میں شبہ موجود تھا، اور یہ بات بہر حال واضح نہیں ہے کہ امریکہ کا نقطۂ نظر یہ تھا کہ جنرل اسمبلی ایسے فیصلے کر سکتی ہے جو سلامتی کونسل کی قرارداد کی سی طاقت رکھتے ہوں۔‘‘
سلامتی کونسل کے برعکس، جنرل اسمبلی کی قراردادوں پر عمل کرنا لازمی نہیں ہے ۔ لیکن پروفیسر باسکو کہتے ہیں کہ پھر بھی یہ قراردادیں کافی وزن رکھتی ہیں۔’’چونکہ جنرل اسمبلی کی قراردادوں کی پابندی لازمی نہیں، اس لیے عام طور سے وہ بین الاقوامی رائے عامہ اور بین الاقوامی قانونی حیثیت کی عکاسی کرتی ہیں۔ یہ چیز بہت اہم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل کو اس بارے میں اتنی زیادہ پریشانی ہے، اور امریکہ اتنا زیادہ پریشان ہے، کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ یہ چیز اہم ہے ۔‘‘
اقوامِ متحدہ میں امریکہ کے نئے سفیر ران پرسور کہتے ہیں کہ دونوں فریق براہ راست مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ فلسطینیوں کی یک طرفہ کارروائی تعمیری نہیں ہو گی۔
لیکن فلسطینی سفیر اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ اسرائیل نے 1948 میں اپنی آزادی کا اعلان یکطرفہ طور پر کر دیا تھا۔ تو پھر فلسطینی ایسا کیوں نہیں کر سکتے؟ ۔ ’’ہماری آزادی کا تمام تر تعلق فلسطینی عوام کی طرف سے اپنا حق خود اختیار ی استعمال کرنے سے ہے۔ یہ کوئی یک طرفہ کارروائی نہیں۔ ہم اپنے اسرائیلی ہمسایوں سے مذاکرات کے لیئے رضامند اور تیار ہیں۔ جن چھ مسائل کا حتمی فیصلہ ہونا ہے وہ یہ ہیں: سرحدیں، سیکورٹی، اسرائیلی بستیاں، یروشلم، فلسطینی پناہ گزیں، اور پانی۔ ہماری آزادی ان چھ مسائل میں شامل نہیں۔‘‘
اگر فلسطینی کوشش کا نتیجہ اقوام متحدہ میں داخلے کی شکل میں نکلتا ہے، تو نئی مملکت کو جنرل اسمبلی میں ووٹ ڈالنے کا حق مل جائے گا، وہ سلامتی کونسل کی 10 غیر مستقل باری باری نشستوں کا انتخاب لڑ سکتی ہے، اور اسے اقوام متحدہ کو رکنیت کی رقم ادا کرنی ہوگی۔ لیکن اگر فلسطینی صرف جنرل اسمبلی کی حد تک کامیاب ہوتے ہیں تو پروفیسر باسکو کہتے ہیں کہ ان کو ملنے والے فوائد ،قانونی حیثیت کی مضبوطی اور سیاسی حمایت کی شکل میں ہوں گے۔