پیرس اجلاس میں شریک 190 سے زائد ملکوں کے وفود نے ہفتے کے روز تاریخی معاہدے کی منظوری دے دی، جس کا مقصد عالمی تپش کی سطح کی رفتار گھٹانا ہے، اور اس میں پہلی بار تمام ملکوں سے کہا گیا ہے کہ وہ 'گرین ہائوس گیسز' کے اخراج کو حد میں رکھنے کی حکمت عملی اپنائیں۔
پیرس شہر سے باہر، لابورے کے مقام پر واقع کانفرنس ہال میں اُس وقت تالیوں کی گونج اور مبارکباد کی آوازیں سنائی دیں جب فرانس کے وزیر خارجہ، لورے فیبس نے کہا کہ ،'میں کمرے میں بیٹھے لوگوں کو خوش دیکھ رہا ہوں، آپ کا رد عمل مثبت ہے، مجھے کسی جانب سے کسی قسم کا اعتراض نظر نہیں آ رہا۔ پیرس موسیماتی معاہدہ منظور ہو چکا ہے'۔
کچھ وفود کے خوشی کے آنسو نمایاں تھے، جب کہ دیگر ایک دوسرے کے ساتھ بغل گیر ہوئے۔
سبھی پُرامید
اِس سے قبل، ہفتے ہی کے روز دو ہفتوں کے اجلاس کے منتظمین اِس بات پر پُرامید نظر آئے کہ وفود مسودہ منظور کر لیں گے، جو 43 صفحات سے کم ہو کر31 صفحات رہ گیا تھا، جب اجلاس کی کارروائی کو ایک روز تک کی توسیع دی گئی تھی۔
اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل، بان کی مون نے لے بورے کے مضافات میں منعقدہ اجلاس میں جمع وفود سے اپنے خطاب میں کہا کہ، 'تکمیل کےمراحل قریب ہیں۔ آئیے ہم اِس کام کو پورا کریں۔ ساری دنیا کی نگاہیں ہماری جانب لگی ہوئی ہیں'۔
بان نے شرکا سے کہا کہ 'اب وقت آگیا ہے کہ یہ بات تسلیم کی جائے کہ عالمی مفاد کو پروان چڑھا کر ہی قومی مفادات کو فروغ مل سکتا ہے'۔
فرانسیسی وزیر خارجہ لورے فیبس نے، جنھوں نے اجلاس کی سربراہی کی، ووٹنگ سے قبل، ایک جذباتی اپیل میں عالمی برادری سے کہا کہ موسمیاتی سمجھوتے کے مسودے پر دستخط کیے جائیں، جسے اُنھوں نے اولولعزم، منصفانہ اور قانونی پابندی کا معاملہ قرار دیا۔
حتمی مسودے میں اس کلیدی معاملے کو نہیں دکھایا گیا آیا امیر اور غریب ملک موسمیانی تبدیلی کے پروگراموں کو پورا کرنے کی ذمہ داری کس طرح تقسیم کریں گے۔
مذاکرات میں تب تیزی آئی جب افتتاحی اجلاس کے دوران اتنےسارے عالمی سربراہ شریک ہوئے اور اُنھوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ مرکزی اور متحدہ اقدام پر تیار ہیں۔
تاریخی لمحہ
ہفتے کو، امریکی صدر براک اوباما نے اپنے ٹویٹ میں کہا ہے کہ 'یہ بڑا معاملہ ہے: دنیا کے تمام ملکوں نے موسمیاتی تبدیلی کے معاہدے پر #پیرس اگریمنٹ پر دستخط کیے۔۔ ہمیں امریکی قیادت کا مشکور رہنا چاہیئے'۔
سمجھوتے تک پہنچنے کے لیے، امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے دن رات ایک کیے۔ اس سے قبل، وہ اعلان کرچکے ہیں کہ امریکہ موسمیات سے متعلق سرمایہ کاری دوگنی کر دے گا، جو اب 80 کروڑ ڈالر کی رقم ہے، جو اقدام موسمی تغیر سے سب سے زیادہ متاثرہ ملکوں کو مد نظر رکھتے ہوئے کیا گیا ہے۔
مسودے میں 100 ارب ڈالر کے ہدف کا تعین کیا گیا ہے، جس کے ذریعے 2020ء تک غریب ملکوں کی مالی امداد کے لیے خرچ ہوگی۔
یہ سمجھوتا طے پایا جبکہ بھارت، چین، سعودی عرب اور ملائیشیا نے اِس کی مخالفت کی۔ اُن کی دلیل تھی کہ صنعتی اقوام کو زیادہ بوجھ برداشت کرنا ہوگا۔۔