پشتون تحفظ موومنٹ کے مرکزی لیڈر منظور احمد پشتین نے کہا ہے کہ ہم امید کرتے ہیں کہ حکومت کے ساتھ کسی بھی قسم کے آئندہ مذاکرات کامیاب ہونگے۔ لیکن انہوں نے حکومت کی جانب سے متعین کردہ جرگے کے ساتھ مذاکرات کے بائیکاٹ کا ذکر نہیں کیا۔
اس سے پہلے یہ اطلاعات آئی تھیں کہ اتوار کے روز جنوبی وزیرستان کے مرکزی قصبے وانا میں سرکاری امن کمیٹی کے جنگجوؤں اور پی ٹی ایم کے کارکنوں کے درمیان جھڑپوں کے بعد پشتون تحفظ موومنٹ نے حکومت کے ساتھ مذاکرات کے بائیکاٹ کا اعلان کیا۔
’وائس آف امریکہ‘ کے ساتھ منگل کے روز ’فیس بک لائیو‘ میں منظور احمد پشتین نے کہا کہ ’’عصر کے وقت انگور اڈا علاقے میں فوج کے اہلکاروں نے پی ٹی ایم کے اہلکاروں کو ایک ریلی کے دوران پھر سے تشدد کا نشانہ بنایا‘‘، اور بقول ان کے، ’’اور بہت سے لوگوں کو گرفتار بھی کیا ہے‘‘۔
’وائس آف امریکہ کے‘ نمائندے کے مطابق جنوبی وزیرستان کے مرکزی قصبے وانا میں اتوار کو پشتون تحفظ تحریک اور حکومت کے حامی عسکریت پسندوں کے درمیان ہونے جھڑپوں کے بعد نافذ کیا جانے والا کرفیو منگل کو مسلسل تیسرے روز بھی جاری رہا۔
منظور احمد پشتین نے مزید کہا کہ طالبان کو امن جرگے کا نام دینا ان لوگوں کے ساتھ ناانصافی ہےجو پچھلے 15 سالوں میں ان کے ہاتھوں مارے گئے ہیں۔
بقول اُن کے، ’’طالبان کو امن کمیٹی کا نام دینا جان چھڑانا ہے اور ڈی جی ’آئی ایس پی آر‘ خصوصی طور پر ان کے دفاع کے لئے کود پڑے ہیں‘‘۔
پشتین کا کہنا ہے کہ ’’حکومت کے جرگے نے اس وقت انہیں مذاکرات کے لئے کال کی جب وانا واقعے کے بعد لوگوں کی لاشیں پڑی تھیں۔ ابھی ان کی تدفین نہیں ہوئی تھی۔ لوگوں کو ہسپتال لے جایا جا رہا تھا۔ بلکل مذاق بنا رکھا ہے‘‘۔
دو روز قبل فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ کے سربراہ، جنرل آصف غفور کے اس بیان پر کہ ہمارے پاس ثبوت ہیں کہ پشتون تحفظ موومنٹ کو ملک دشمن طاقتیں استعمال کر رہی ہیں۔ اس کے جواب میں منظور احمد پشتین کا کہنا ہے کہ اگر ان کے پاس کوئی ثبوت ہے تو عوام کے سامنے پیش کریں۔
اُنھوں نے کہا کہ ’’ان کے پاس ایک ہی ثبوت ہے کہ پی ٹی ایم کی ٹوپی افغانستان سے آئی ہے ۔ٹوپی تو بہت عرصے پہلے میں نے اپنے گاوں کے ایک مزدور سے لی تھی ‘‘۔
پشتین کا کہنا ہے کہ پی ٹی ایم ایک عوامی تحریک ہے۔ ہمیں بیرونی فنڈز کی ضرورت نہیں کیونکہ لوگ جلسوں میں آکر ہمیں چندہ دیتے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں کہ فوج اور ریاستی ادروں کے خلاف نعرے بازی کرنے اور انہیں الزام دینے سے کیا ان کے مسائل ختم ہو جائیں گے تو منظور احمد پشتین کا کہنا تھا کہ ’’جب سب کچھ یہی لوگ کرتے ہیں تو کیوں نہ ان کا نام لیں۔انہوں نے ظلم کیا ہے تو کیوں نہ ان کو الزام دیں۔ پروپگنڈا تو جھوٹ کو کہتے ہیں ہم جھوٹ تو نہیں کہہ رہے بلکہ ثبوت کے ساتھ سب کچھ پیش کر رہے ہیں‘‘۔
تاہم، ان کا کہنا ہے کہ انہیں امید ہے کہ مذاکرات آگے بڑھیں گے اور جو بھی اس کوشش میں ہمارا ساتھ دے گا، خواہ ان کی طرف سے ہو یا ہماری طرف سے، ہم ان کا خیر مقدم کرتے ہیں۔