اسلام آباد پولیس نے پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) اور عوامی ورکرز پارٹی کے 28 کارکنوں کے خلاف اسلام آباد کے تھانہ کوہسار میں 11 مختلف دفعات کے تحت مقدمہ درج کرلیا ہے۔
تھانہ کوہسار کے ڈیوٹی افسر کی مدعیت میں درج اس ایف آئی آر میں پولیس کا کہنا ہے کہ پشتون تحفظ مومنٹ اور عوامی ورکرز پارٹی کے رہنما ڈاکٹر عبدالکریم اور محسن داوڑ وغیرہ نے پریس کلب پر اکٹھے ہونے کی کال دی جس پر مظاہرین پریس کلب پر جمع ہورہے تھے۔
یہ مظاہرین اتوار کو جنوبی وزیرستان کے مرکزی قصبے وانا میں پشتون تحفظ تحریک کے کارکنوں اور حکومت کی حمایت یافتہ امن کمیٹی کے جنگجووں کے درمیان تصادم کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔
دونوں گروپوں کی جھڑپوں میں پانچ افراد ہلاک اور 20 سے زائد زخمی ہوگئے تھے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ اسلام آباد میں جمع ہونے والے مظاہرین کو بتادیا گیا تھا کہ دفعہ 144 نافذ ہونے کے باعث ان کا اجتماع غیر قانونی ہے لہذا وہ منتشر ہوجائیں۔ لیکن مظاہرین نے حکومتِ پاکستان اور افواجِ پاکستان کے خلاف نعرے بازی اور تقاریر شروع کردیں اور نفرت و حقارت پیدا کرنے والے الفاظ استعمال کیے۔
ایف آئی آر کے مطابق مقررین نے مظاہرین کو نقضِ امن پر مائل کیا۔ مظاہرین منظور پشتین اور رحیم وزیر زندہ باد اور "یہ جو دہشت گردی ہے، اس کے پیچھے وردی ہے" جیسے نعرے لگاتے رہے۔
مقررین نے تقاریر کے ذریعے حکومتِ پاکستان اور افواجِ پاکستان کے خلاف نعرے بازی کرتے ہوئے مظاہرین کو اشتعال دلا کر روڈ بلاک کرنے پر آمادہ کیا جس پر انہوں نے روڈ بلاک کردیا۔
ایف آئی آر کے مطابق روڈ بلاک کرنے پر پولیس نے مزید فورس بلا کر مظاہرین کو منتشر کیا اور 28 افراد کو گرفتار کرلیا۔
پولیس نے ایف آئی آر میں تمام گرفتار شدگان کے نام لکھے ہیں جبکہ بھاگ جانے والے افراد میں ڈاکٹر عبدالکریم، سابق ایم پی اے خیبر پختونخوا سلیم خان ایڈوکیٹ، محسن داوڑ، خان زمان کاکڑ، عبدالجبار میمن، عبدالرحیم وزیر، اشتیاق وزیر اور دیگر شامل ہیں۔
یاد رہے کہ اسلام آباد پولیس نے پیر کی شب پریس کلب کے باہر احتجاج کرنے والے پی ٹی ایم کے کئی کارکنوں کو گرفتار کرکے مظاہرہ ختم کرادیا تھا۔
یہ پکڑ دھکڑ پاک فوج کے ترجمان اور ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور کی نیوز کانفرنس کے بعد کی گئی تھی جس میں انہوں نے کہا تھا کہ فوج کے پاس پی ٹی ایم کے خلاف بہت سارے ثبوت ہیں کہ ان لوگوں کو ملک دشمن طاقتیں استعمال کر رہی ہیں۔
انہوں نے کہا تھا کہ سوشل میڈیا پر آٹھ سالہ بچی کی تصویر لگاکر فوج کے خلاف پروپیگنڈا کیا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ یہ لوگ ریاست کو طاقت کے استعمال پر مجبور کر رہے ہیں جو ان کے بقول "ہم نہیں چاہتے۔"
ڈی جی آئی ایس پی آر کی اس پریس کانفرنس کے بعد پیر کی شب پولیس کی بھاری نفری اسلام آباد پریس کلب پہنچی تھی اور وہاں موجود مظاہرین کو گرفتار کرنا شروع کر دیا تھا۔ اس دوران کچھ کارکن بھاگنے میں کامیاب ہو گئے لیکن 28 افراد کو گرفتار کرلیا گیا تھا۔
پولیس نے جس وقت مظاہرین کو تھانے منتقل کیا اس دوران بعض افراد کے پاس موٹرسائیکل بھی تھے جو پولیس نے اپنی گاڑیوں پر ان مظاہرین کے ساتھ ہی تھانے منتقل کردیے۔