|
پشاور -- خیبرپختونخوا حکومت کے ترجمان بیرسٹر سیف نے تصدیق کی ہے کہ کرم میں امن کے لیے کوہاٹ میں ہونے والے مذاکرات کامیاب ہو گئے ہیں۔ فریقین نے معاہدے پر دستخط بھی کر دیے ہیں۔
بدھ کو جاری کیے گئے بیان میں بیرسٹر سیف کا کہنا تھا کہ ایک فریق نے معاہدے پر چند روز قبل دستخط کر دیے تھے جب کہ دوسرے فریق نے بدھ کو معاہدے پر دستخط کر دیے ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ فریقین نے اسلحہ جمع کرانے اور شاہراہوں کی سیکیورٹی یقینی بنانے پر اتفاق کیا ہے۔ کسی بھی واقعے کی صورت متعلقہ گاؤں کے لوگ ذمے دار ہوں گے۔
کوہاٹ میں کئی روز تک جاری رہنے والے گرینڈ امن جرگے میں فریقین کی جانب سے 45، 45 افراد نے معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔
امن معاہدے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اراضی کے تنازعات کو اراضی کمیشن کے ذریعے حل کیا جائے گا۔ معاہدے کے متن میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایک ماہ کے اندر تمام نجی بنکرز ختم کر دیے جائیں گے۔
معاہدے میں کہا گیا ہے کہ اگر کسی علاقے میں کوئی واقعہ ہوتا ہے تو امن کمیٹیاں فوری متحرک ہوں گی۔ دوسرا فریق اس پر کوئی جوابی کارروائی نہیں کرے گا۔
معاہدے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر کسی گاؤں میں اراضی کا تنازع یا مسلکی اختلاف ہوتا ہے تو اس پر ہمسایہ گاؤں کی امن کمیٹیاں تصفیہ کرائیں گی۔
خیبرپختونخوا کے قبائلی ضلعے کرم میں فرقہ وارانہ کشیدگی تو گزشتہ کئی ماہ سے جاری ہے۔ تاہم 21 نومبر کو مسافر گاڑیوں کے قافلے پر حملے میں 45 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ اس کے بعد 22 نومبر کو ضلع کے مختلف جگہوں پر جھڑپیں شروع ہو گئی تھیں جس میں درجنوں افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
ان پرتشدد واقعات کے بعد علاقے میں صورتِ حال مزید خراب ہو گئی تھی اور راستوں کی بندش سے کرم میں اشیائے خورونوش اور ادویات کی قلت ہے۔
معاہدے کے اہم نکات
معاہدے میں کہا گیا ہے کہ سرکاری شاہراہ پر کسی ناخوش گوار واقعے کی صورت میں علاقے کے لوگ کرم رواج اور قانون کے مطابق اپنی بے گناہی ثابت کریں گے۔
اگر کسی شخص یا اشخاص نے کسی شر پسند کو کوئی پناہ دی یا قیام و طعام میں معاونت کی تو ایسے شخص یا اشخاص کو رواج اور قانون کے مطابق مجرم تصور کیا جائے گا۔
معاہدہ مری کے مطابق ضلع کرم کے بے دخل شدہ خاندانوں کو اپنے اپنے علاقوں میں آباد کیا جائے گا جب کہ ان کی آباد کاری میں کسی قسم کی رکاوٹ نہیں ڈالی جائے گی۔
اسلحے کی آزادانہ نمائش و استعمال پر مکمل پابندی اور اسلحہ خریدنے کے لیے چندہ جمع کرنے کی اجازت نہیں ہو گی۔ فریقین صوبائی کابینہ کے فیصلے کی روشنی میں اسلحے سے متعلق دو ہفتوں کے اندر لائحہ عمل دیں گے۔
کوئی بھی شخص لڑائی کو مذہبی رنگ نہیں دے گا۔ علاقے میں فرقہ وارانہ نفرت کی بنیاد پر قائم کالعدم تنظیموں کو کام کرنے یا دفتر کھولنے پر پابندی ہو گی۔
تمام سرکاری افسران اُساتذہ، جوڈیشل افسران اور دیگر اداروں کے ملازمین بلا خوف و خطر اپنا کام کریں گے۔ مقامی افراد پشتون روایات کے مطابق ایک مہمان کی حیثیت سے اُن کا تحفظ یقینی بنائیں گے۔
پولیس یا ریاستی اداروں کی جانب سے تخریب کاری میں ملوث شخص کی گرفتاری کی صورت میں قبیلے کے مشران یا مسلک کے افراد اس میں رکاوٹ نہیں ڈالیں گے۔
فورم