امریکی نائب صدر مائیک پینس نے ہفتے کو عراق کا غیر اعلانیہ دورہ کیا۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے دو ماہ قبل شام سے امریکی فوجیں واپس بلانے کے اعلان کے بعد اعلیٰ ترین سطح کے کسی امریکی کا خطے کا یہ پہلا دورہ ہے۔
وہ سی 17 فوجی کارگو جیٹ طیارے کے ذریعے تنازعے کے زون میں اترے۔ پینس اربیل پہنچے جہاں انھوں نے عراقی کردستان کے صدر نوشیروان بارزانی سے ملاقات کی۔
دورے کا مقصد داعش کے خلاف لڑائی میں امریکی اتحادیوں کی یقین دہانی کرانا ہے۔ گزشتہ ماہ ٹرمپ کی جانب سے فوج کے انخلا کے حکم نامے کے بعد ترک فوج کے حملوں میں شامی کردوں کو کافی نقصان پہنچ چکا ہے۔
اربیل آمد سے قبل، پینس کو عراق کے الاسد ہوائی اڈے پر صورت حال سے متعلق کلاسی فائیڈ نوعیت کی بریفنگ دی گئی۔ گذشتہ ماہ امریکی افواج نے شام میں فوجی کارروائی کی جس میں دولت اسلامیہ کے سربراہ ابو بکر البغدادی کو ہلاک کیا گیا۔ وہاں سے انھوں نے عراقی وزیر اعظم عادل عبدالمہدی سے بات کی۔
پانچ ہفتے قبل، جب ٹرمپ نے انھیں ترکی کا فوری چکر لگانے کی ذمہ داری دی، پینس کا خطے کا یہ دوسرا دورہ ہے۔
اُس وقت پینس نے صدر رجب طیب اردوان کے ساتھ جنگ بندی سے متعلق مذاکرات کیے تھے، جنھوں نے امریکی فوج کے انخلا کا سنتے ہی شمالی شام میں کرد جنگجوؤں پر حملہ کر دیا تھا۔
فوجی انخلا کے ٹرمپ کے فیصلے پر ان کی انتظامیہ پر سخت تنقید کی گئی۔ ایوانِ نمائندگان میں دونوں اطراف سے تعلق رکھنے والے قانون دانوں نے کہا کہ طویل مدت کے اتحادی کردوں کو بے یار و مدد گار چھوڑا گیا ہے؛ جب کہ انخلا کے اعلان کے نتیجے میں روس اور ایران کو اس کشیدگی کے شکار خطے میں اپنی من مانی کرنے کی کھلی چھٹی مل گئی ہے۔
پینس نے کہا کہ وہ اس بات کا خیر مقدم کرتے ہیں کہ ''صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے انھیں موقع دیا کہ اس خطے میں امریکہ اور کرد عوام کے مابین مضبوط بندھن استوار کرنے کا اعادہ کیا جائے''۔
ایک اعلیٰ امریکی اہل کار نے بتایا ہے کہ پینس کے دورے کا مقصد عراقی کردوں کو، جو داعش کے خلاف لڑائی میں اتحادی ہیں، یقین دہانی کرائی جائے؛ ساتھ ہی امریکیوں کو تسلی دی جائے جو طویل مدت سے کردوں کے حامی رہے ہیں، اور یہ کہ ٹرمپ انتظامیہ اتحاد جاری رکھنے میں پُرعزم ہے۔
اس دورے کا یہ بھی مقصد ہے کہ پینس خارجہ پالیسی پر دھیان مرکوز رکھیں ایسے میں جب امریکہ مواخذے کی کارروائی میں الجھا ہوا ہے۔
پینس نے امریکی فوجیوں سے بھی ملاقات کی۔