امریکہ کے ایک سابق اہل کار نے فوج کے راز افشا کرنے کے الزامات میں بے قصور ہونے کی درخواست دائر کی ہے۔
عدالتی دستاویزات کے مطابق امریکی فضائیہ ایئر نیشنل گارڈز کے سابق اہل کار 21 سالہ جیک ڈگلس ٹیکشیرا نے قومی دفاع سے متعلق خفیہ معلومات کو جان بوجھ کر اپنے پاس رکھنے اور اسے دوسرے افراد کو منتقل کرنے کے چھ الزامات میں قصوروار نہ ہونے کی درخواست دی ہے۔
جیک ڈگلس ٹیکشیرا کو یوکرین میں جاری جنگ سمیت دیگر حساس معاملات سے متعلق پینٹاگان کی دستاویزات افشا کرنے پراپریل میں گرفتار کیا گیا تھا جس کے بعد بدھ کو انہیں میساچوسٹس کی ایک وفاقی عدالت میں پیش کیا گیا۔
جیک ڈگلس ٹیکشیرا بوسٹن کی پلیمتھ کی ایک جیل میں قید ہیں اور اس مقدمے کی سماعت کا انتظار کر رہے ہیں جس کے ٹرائل کی تاریخ ابھی تک مقرر نہیں کی گئی ہے۔
گرفتاری کے بعد جیک ڈگلس ٹیکشیراکے اہل خانہ نے ایک بیان میں کہا تھا کہ انہیں جیک کے ساتھ مناسب اور منصفانہ سلوک کی امید ہے جس کے وہ مستحق ہیں۔
استغاثہ کا کہنا ہے کہ جیک ڈگلس ٹیکشیرا نے میسجنگ ایپ’ ڈسکورڈ‘ پر گیمرز کے ایک گروپ کو خفیہ دستاویزات لیک کی تھیں۔
سال 2010 میں وکی لیکس کی ویب سائٹ پر سات لاکھ سے زیادہ دستاویزات، ویڈیوز اور سفارتی کیبلز سامنے آنے کے بعد سے اس لیک کو امریکہ کی قومی سلامتی کی سب سے سنگین خلاف ورزی قرار دیا جاتا ہے۔
تحقیقات کرنے والوں کو جیک ڈگلس ٹیکشیرا پر اس وقت شک ہوا تھا جب انہوں نے میسجنگ ایپلی کیشن'ڈسکورڈ' پر پوسٹ کردہ مواد کا جائزہ لیا۔
ڈسکورڈ پر لیک ہونے والی دستاویزات میں امریکہ کے اتحادیوں اور مخالفین کے بارے میں انتہائی خفیہ معلومات موجود تھیں جن میں یوکرین کے فضائی دفاع سے لے کر اسرائیل کے جاسوسی کے ادارے ’موساد‘ تک کی تفصیلات درج تھیں۔ صدر جو بائیڈن نے لیکس کی تحقیقات کا حکم دیا تھا۔
خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق تحقیقاتی ویب سائٹ 'بیلنگ کیٹ' اور نیویارک ٹائمز نے پہلی بار عوامی سطح پرجیک ڈگلس ٹیکشیرا کی شناخت ظاہر کی تھی۔
امریکی ایئر نیشنل گارڈ کی انٹیلی جینس ونگ کی ایک سوشل میڈیا پوسٹ کے مطابق جیک ڈگلس ٹیکشیرا ایئر فورس انٹیلی جینس یونٹ میں ایئرمین تھے۔
حکام کا کہنا تھاکہ جیک ڈگلس ٹیکشیرا سائبر ٹرانسپورٹ سسٹم کے ماہر تھے۔ اس اعتبار سے فوجی کمیونی کیشن نیٹ ورک میں ایک آئی ٹی اسپیشلسٹ کی اہم ذمے داری ہوتی ہے۔ اس عہدے کے لیے جیک ڈگلس ٹیکشیرا کی اعلیٰ سطح پر سیکیورٹی کلیئرنس ہو چکی تھی اس لیے انہیں فوجی نیٹ ورک تک رسائی اور اس کی حفاظت کی ذمے داری سونپی گئی تھی۔
محکمۂ انصاف کے مطابق قومی دفاعی معلومات کو اجازت کے بغیر رکھنے اور منتقل کرنے کے ہر الزام میں 10 سال تک قید، تین سال زیرِ نگرانی رہنے اور ڈھائی لاکھ ڈالرز تک جرمانے کی سزا ہوتی ہے۔
اس رپورٹ کے لیے معلومات خبر رساں اداروں ’اے ایف پی‘ اور ’ایسو سی ایٹڈ پریس‘ سے لی گئی ہیں۔