پینٹاگون نے کہا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ کے نزدیک طالبان کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے تصفیے میں پیش رفت اس وقت تک مشکل ہو گی جب تک طالبان 2020 کے معاہدے کے مطابق اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کرتے۔
جمعرات کو جاری ہونے والے بیان میں پینٹاگون کا کہنا تھا کہ امریکہ اس سلسلے میں کوششیں جاری رکھے گا۔
افغانستان کے انسانی حقوق کے کمیشن کے مطابق افغانستان میں 2020 میں شہریوں کی اموات کی تعداد 2900 سے زیادہ رہی ہے۔ دوسری جانب جنگ کے خاتمے کے لے قطر میں سفارتی سطح پر اقدامات میں اضافہ دیکھنے میں آیا جب کہ اس دوران بین الفغان امن مذاکرات بھی جاری تھے۔
افغانستان میں بڑھتے ہوئے تشدد اور حملوں کے باعث امن عمل نازک صورت حال سے دو چار ہے۔ جب کہ جنگ بندی کے لیے عالمی سطح پر مطالبات کو بھی نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔ امن عمل کے دوران افغان حکومت طالبان کے ساتھ مذاکرات میں مصروف ہے۔
پینٹاگون کے ترجمان جان کربی نے کہا ہے کہ جب تک طالبان دہشت گردی کی کارروائیاں ترک کرنے اور افغان سیکیورٹی فورسز کے خلاف پر تشدد حملے بند کرنے کے عہد پر کاربند نہیں ہوتے، مذاکرات میں پیش رفت بہت مشکل ہو گی۔ البتہ امریکہ اس سلسلے میں کوشش جاری رکھے ہوئے ہے۔
امریکہ اور طالبان میں قطر کے دارالحکومت دوحہ میں لگ بھگ ایک سال قبل فروری 2020 میں طے ہونے والے امن معاہدے کے تحت امریکہ افغانستان سے مئی 2021 تک اپنی فوجوں کے مکمل انخلا کا پابند ہے جس کے لیے طالبان کو امن و سلامتی کی ضمانت دینی ہو گی۔
امریکی حکام اور سفارت کار کہتے آئے ہیں کہ طالبان سے منسلک حقانی نیٹ ورک اور القاعدہ کے درمیان قریبی تعلق برقرار ہے۔
پینٹاگون کے ترجمان جان کربی کا کہنا تھا کہ طالبان اس سلسلے میں اب تک اپنی ذمہ داری پوری کرنے سے قاصر رہے ہیں۔
رواں ماہ کے آغاز میں امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے افغانستان میں امریکہ کے فوجیوں کی تعداد کم کرتے ہوئے 2500 کر دی تھی۔ یہ افغانستان میں 2001 کے بعد سے امریکی فوجیوں کی کم ترین تعداد ہے۔
جان کربی کا کہنا تھا کہ جو بائیڈن انتظامیہ نے فی الحال افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد کے حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں کیا۔
سفارت کار اندیشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ طالبان کے پُر تشدد حملوں میں اضافے کی وجہ سے امن مذاکرات کے حوالے سے اعتماد کی فضا کو نقصان پہنچا ہے۔
وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلی وین نے اپنے افغان ہم منصب کو آگاہ کیا ہے کہ امریکہ طالبان کے ساتھ ہونے والے امن سمجھوتے پر نظرِ ثانی کا ارادہ رکھتا ہے۔
دوسری جانب طالبان نے پینٹاگون کے ترجمان جان کربی کے بیان کو مسترد کر دیا ہے۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا ہے کہ طالبان امریکہ سے کیے گئے معاہدے پر عمل در آمد کے لیے پُر عزم ہیں۔
ذبیح اللہ مجاہد نے ٹوئٹر پر مختصر بیان میں کہا ہے کہ طالبان امریکہ کے ساتھ طے ہونے والے سمجھوتے کی مکمل پاسداری کر رہے ہیں۔
انہوں نے امریکہ پر زور دیا کہ وہ بھی معاہدے پر مکمل عمل در آمد کرے۔
علاوہ ازیں امریکہ کے وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے جمعرات کو افغان صدر اشرف غنی سے افغان امن عمل اور دو طرفہ پائیدار شراکت سے متعلق امریکہ کے عزم کے حوالے سے ٹیلی فون پر گفتگو کی ہے۔
امریکہ کے محکمہ خارجہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ وزیرِ خارجہ نے گفتگو کے دوران امن عمل کے لیے سفارتی تعاون کا یقین دلایا ہے جس کا مقصد فریقین میں دیرپا اور مسئلے کے سیاسی تصفیے کی راہ ہموار ہو۔ جب کہ مستقل اور جامع جنگ بندی کو یقینی بنایا جا سکے جس سے افغان عوام کو فائدہ پہنچے گا۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے افغان صدر کو آگاہ کیا کہ امریکہ طالبان کے ساتھ فروری 2020 میں ہونے والے سمجھوتے پر نظرِ ثانی کرنے کا ارادہ رکھتا ہے اور اس بات کا بھی جائزہ لے رہا ہے کہ طالبان دیگر دہشت گرد گروپوں کے ساتھ اپنا تعلق ختم کر رہے ہیں یا نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس بات کا بھی جائزہ لیا جا رہا ہے کہ کیا طالبان افغانستان میں تشدد کے واقعات میں کمی لائے ہیں اور افغان حکومت اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ بامعنی مذاکرات جاری رکھے ہوئے ہیں یا نہیں۔
وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے اس خواہش کو دہرایا کہ تمام افغان رہنما امن کے اس تاریخی موقع کی حمایت کریں۔