رسائی کے لنکس

عمران خان کے الزامات: چوہدری پرویز الہٰی کہاں کھڑے ہیں؟


پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان پر حملے کے بعد ملکی سیاست ایک نیا رُخ اختیار کر رہی ہے۔ ایک جانب جہاں ملک بھر میں پی ٹی آئی کے کارکنوں کا احتجاج جاری ہے تو اس معاملے پر بھی سب کی نظریں ہیں کہ کس سیاسی لیڈر کا جھکاؤ کس جانب ہے۔ بظاہر اسٹیبلشمنٹ کے قریب سمجھے جانے والے وزیرِ اعلٰی پنجاب چوہدری پرویز الہٰی کے لیے بھی یہ صورتِ حال کسی امتحان سے کم نہیں ہے۔

چوہدری پرویز الہٰی پنجاب میں تحریکِ انصاف کی اتحادی حکومت کے وزیرِ اعلٰی ہیں۔مبصرین کے مطابق ایسے میں اُن کے لیے عمران خان کے ساتھ اظہارِ یکجہتی اور دوسری جانب اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ قربتیں برقرار رکھنا کسی چیلنج سے کم نہیں ہے۔

سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ گجرات کے چوہدری خاندان کی سیاست 'پرو اسٹیبلشمنٹ' رہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ عمران خان کی جانب سے اسٹیبلشمنٹ سے محاذ آرائی کے معاملے پر چوہدری پرویز الہٰی بظاہر ایک مشکل صورتِ حال سے دوچار ہیں۔

عمران خان اپنے اُوپر حملے کا ذمے دار شہباز شریف اور رانا ثناء اللہ کے علاوہ خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے شعبہ کاؤنٹر انٹیلی جنس کے سربراہ میجر جنرل فیصل نصیر پر بھی عائد کر رہے ہیں۔تاہم ذرائع کے مطابق چوہدری پرویز الہٰٰی عمران خان پر زور دے رہے ہیں کہ ایف آئی آر میں فیصل نصیر کو نامزد نہ کیا جائے۔

اپنے حالیہ بیانات میں چوہدری پرویز الہٰی کھل کر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی تعریفیں کرتے رہے ہیں اور ملکی معیشت کو سنبھالا دینے اور اہم قومی معاملات میں اُن کے کردار کو سراہتے رہے ہیں۔

چوہدری پرویز الہٰی کے قریبی ذرائع نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ چوہدری پرویز الہٰی عمران خان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ لیکن بطور اتحادی اُنہیں بہتر مشورے دینا بھی اُن کا فرض ہے۔

مقامی ذرائع ابلاغ کی رپورٹس کے مطابق عمران خان پر حملے کے بعد چوہدری پرویز الہٰی اور عمران خان کی اسپتال میں ہونے والی ملاقاتوں میں بھی چوہدری پرویز الہٰی نے معاملات افہام و تفہیم سے حل کرنے پر زور دیا ہے۔

مئی میں وائس آف امریکہ کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں بھی چوہدری پرویز الہٰی نے کہا تھا کہ اُن کی کوشش ہے کہ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے وہ اپنا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہیں۔

جمعے کو بھی چوہدری پرویز الہٰی نے سابق وزیرِاعظم عمران خان سے اسپتال میں ملاقات کی جس کے بعد مسلم لیگ (ق) کے رہنما چوہدری مونس الہٰی نے ٹوئٹ کی کہ عمران خان نے کچھ ہدایات دی ہیں جس پر من و عن عمل کیا جائے گا۔

'ایف آئی آر کے معاملے پر عمران خان اور چوہدری پرویز الہٰی کے درمیان ڈیڈ لاک ہے'

سینئر صحافی اور تجزیہ کار سلمان غنی کہتے ہیں کہ چوہدری پرویز الہٰی اور عمران خان ماضی میں ایک دوسرے کے بڑے مخالف رہے ہیں۔ لیکن پنجاب کی سیاسی صورتِ حال انہیں قریب لے آئی۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے سلمان غنی کا کہنا تھا کہ چوہدری پرویز الہٰی کی 40 سالہ سیاست یہی رہی ہے کہ وہ کبھی بھی اداروں بالخصوص فوج کے ساتھ اپنے تعلقات خراب نہیں کرتے۔

سلمان غنی کا کہنا تھا کہ اُن کی اطلاعات کے مطابق چوہدری پرویز الہٰی نے عمران خان کو یہی مشورہ دیا ہے کہ بیک وقت اتنے محاذ کھولنا مناسب نہیں ہے۔ لہذٰا ایف آئی آر میں میجر جنرل فیصل نصیر کو نامزد نہ کیا جائے۔ اُن کے بقول اس معاملے پر فی الحال ڈیڈ لاک برقرار ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ یہ حیران کن ہے کہ واقعے کو 48 گھنٹے گزر جانے کے باوجود ایف آئی آر درج نہیں ہوئی۔ تحریکِ انصاف نے سنجیدگی سے کام نہ لیا تو ان کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔

'تحریکِ انصاف کی پنجاب میں حکومت کا انحصار چوہدری پرویز الہٰی پر ہے'

سینئر تجزیہ کار مجیب الرحمان شامی کہتے ہیں کہ اطلاعات تو یہیں ہیں کہ ایف آئی آر کے اندراج کے معاملے پر اختلافات ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے مجیب الرحمان شامی کا کہنا تھاکہ لانگ مارچ کی سیکیورٹی کی ذمے داری پنجاب حکومت کی تھی اور مشیرِ داخلہ کا چارج بھی تحریکِ انصاف کے عمر سرفراز چیمہ کے پاس ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ چوہدری پرویز الہٰی کی پوزیشن مضبوط ہے، اگر حکومت ختم ہوتی ہے تو پنجاب میں تحریکِ انصاف کی حکومت بھی ختم ہو جائے گی۔ لہذٰا تحریکِ انصاف کو چوہدری پرویز الہٰی کے ساتھ چلنا پڑے گا۔

سلمان غنی کا کہنا تھا کہ اُنہیں نہیں لگتا کہ اس صورتِ حال میں چوہدری پرویز الہٰی عمران خان کے ساتھ کھڑے ہو پائیں گے اور نہ ہی وہ عمران خان کو ایسا مشورہ دیں گے جو فوج کے خلاف ہو گا۔

'چوہدری پرویز الہٰی کو پنجاب میں توازن قائم رکھنے کے لیے وزیرِ اعلٰی بنایا گیا تھا'

سلمان غنی کہتے ہیں کہ چوہدری پرویز الہٰی کو وزیرِ اعلٰی بنانے میں مقتدر حلقوں کا بھی ہاتھ تھا اور اس کا مقصد یہی تھا کہ صوبے میں حالات کو بیلنس رکھا جائے اور اسی نوعیت کی صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے اُنہیں وزیرِ اعلٰی بنایا گیا تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ اگر پرویز الہٰی کی جگہ پنجاب میں تحریکِ انصاف کا اپنا وزیرِ اعلٰی ہوتا تو وہ عمران خان کے احکامات پر من و عن عمل کرتا۔

سلمان غنی کہتے ہیں کہ اگر تحریکِ انصاف چوہدری پرویز الہٰی کی حمایت سے پیچھے ہٹ جائے گی تو بھی چوہدری پرویز الہٰی کے پاس آپشنز ہوں گے۔ کیوں کہ عمران خان بیک وقت شہباز شریف، رانا ثناء اللہ اور پھر آئی ایس آئی کے افسر کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

مجیب الرحمان شامی کہتے ہیں کہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ عمران خان اپنے مطالبے پر نظرثانی کریں اور فوجی افسر کا نام ایف آئی آر میں ڈالوانے کے مطالبے سے پیچھے ہٹ جائیں۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ چوہدری پرویز الہٰی ایک منجھے ہوئے سیاست دان ہیں اور وہ حالات کی نزاکت سے بخوبی آگاہ ہیں۔ لہذٰا اُن کی پوری کوشش ہو گی کہ وہ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات میں توازن قائم رکھ سکیں۔

XS
SM
MD
LG