رسائی کے لنکس

‘سیاسی بے یقینی بڑھی تو معاشی حالات مزید خراب ہوں گے‘


متاثرین کا کہنا ہے کہ غیر یقینی سیاسی صورتِ حال کی وجہ سے ملک میں معاشی سرگرمیاں متاثر ہوئی ہیں۔
متاثرین کا کہنا ہے کہ غیر یقینی سیاسی صورتِ حال کی وجہ سے ملک میں معاشی سرگرمیاں متاثر ہوئی ہیں۔

سابق وزیر اعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان پر وزیر آباد میں جمعرات کے روز قاتلانہ حملے کے بعد جہاں سیاسی ماحول کشیدہ نظر آتا ہے وہیں اس واقعے کے بعد پیدا ہونے والی صورتِ حال سے معاشی سرگرمیاں بھی شدید متاثر ہورہی ہیں۔

سیاسی عدم استحکام کے باعث اس واقعے سے قبل ہی معاشی سرگرمیاں اثر انداز ہورہی تھیں۔ گزشتہ جمعے کو شروع ہونے والا تحریکِ انصاف کا لانگ مارچ لاہور سے جی ٹی روڈ کے راستے شاہدرہ، مریدکے، سادھوکی، کامونکی، گوجرنوالہ، راہو والی اور گھکھڑ منڈی کے بعد ساتویں روز وزیر آباد تک پہنچا تھا۔

مقامی صحافی احتشام شامی کے مطابق اس دوران گوجرانوالہ ڈویژن میں چار روز تک اسکول بند رہے اور اس کے علاوہ جی ٹی روڈ پر واقع صنعتیں، دکانیں اور مارکیٹیں بھی سب سیکیورٹی کے پیش نظر بند رکھی گئیں۔

ان کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کا مارچ جن راستوں سے گزر رہا تھا ان علاقوں میں سرامکس، ٹائلیں، پنکھوں کی فیکٹریاں، کٹلری ، دریاں اور اس طرح کی دیگر چھوٹی بڑی صنعتیں بند بھی رہیں۔

اس کے علاوہ چاول کی کاشت کے سیزن کے باوجود چاول کی پیداوار کرنے والے ’رائس بیلٹ‘ میں شامل کامونکی اور ایمن آباد کے علاقوں میں لانگ مارچ کی وجہ سے رائس ملز بند رہیں جس کے باعث متعلقہ کاروبار اور منڈیاں بھی بند رکھی گئیں۔

اس دوران احتجاج اور غیر یقینی سیاسی صورتِ حال کی وجہ سے گوجرانوالہ، وزیر آباد، لاہور بلکہ دارالحکومت اسلام آباد اور ملک کی معاشی سرگرمیوں کے مرکز کراچی میں بھی معاشی سرگرمیاں متاثر ہوئیں۔

لانگ مارچ میں فائرنگ کے واقعے کے بعد سے جمعے کو پاکستان اسٹاک مارکیٹ پر بھی سیاسی افراتفری اور بے یقینی کی کیفت کے اثرات واضح طور پر دکھائی دیے۔ کاروباری ہفتے کے آخری دن سرمایہ کاروں نے محتاط انداز اپنایا اور کاروبار کے اختتام پر اسٹاک مارکیٹ میں مجموعی طور پر 234 پوائنٹس کی بڑی کمی دیکھی گئی۔

’دورۂ چین سے توقعات پوری نہیں ہوئیں‘

معاشی تجزیہ کار شہریار بٹ کا کہنا ہے کہ لانگ مارچ میں عمران خان پر فائرنگ کے افسوسناک واقعے نے سیاسی غیر یقینی کو مزید ہوا دی ہے جس کی وجہ سے مارکیٹ میں بڑی گراوٹ دیکھی گئی ہے۔

انہوں نے یہ بھی نشاندہی کی کہ سرمایہ کاروں کو وزیرِ اعظم شہباز شریف کے دورۂ چین سے کافی توقعات تھیں جو پوری ہوتی ہوئی نظر نہیں آتیں۔ ان کے بقول، چین نے سی پیک منصوبوں میں سرمایہ کاری تیز کرنے کے اعلانات تو کیے ہیں لیکن پاکستان کو درکار معاشی معاونت سے متعلق کوئی واضح عندیہ نہیں دیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو معاشی مشکلات سے نکلنے کے لیے چین کی جانب سے قرضے ری شیڈول کرنے کی توقع تھی تاہم اس بارے میں چین نے کوئی وعدہ نہیں کیا۔

زرِ مبادلہ کے ذخائر سے متعلق شہریار بٹ کا کہنا تھا کہ اس وقت پاکستان کو ملک میں ڈالر لانے کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ پاکستان کو ایشیائی ترقیاتی بینک کی طرف سے ڈیڑھ ارب ڈالرز کی رقم ملی ہے لیکن اس کے باوجود بھی اسٹیٹ بینک کے غیر ملکی زرمبادلہ کے زخائر 8.9 ارب ڈالر پر رکے ہوئے ہیں جویقیناً بہت کم ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ دوسری جانب حکومت جاری کھاتوں کا خسارہ کسی حد تک روکنے میں کامیاب تو ہوئی ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان کی ٹیکسٹائل سیکٹر کی برآمدات میں کمی واقع ہوئی ہے جس سے ملک کو نقصان کا سامنا ہے۔

"بے یقینی بڑھی تو معاشی حالات مزید خراب ہوں گے"

ماہرِ اقتصادیات ڈاکٹر قیصر بنگالی کا کہنا ہے کہ سیاسی غیر یقینی صورتِ حال کی وجہ سے سرمایہ کار ’دیکھو اور انتظار کرو‘ کی پالیسی پر عمل کرتے ہیں ۔ اگر حالات خراب ہوں، دکانیں مارکیٹیں بند ہوں تو اس سے طلب اور رسد میں فرق پڑتا ہے۔ ایسے حالات میں سپلائی چین متاثر ہوچکی ہوتی ہے۔ اس سے معاشی سرگرمیوں میں بھی خلل پڑتا ہے۔ دیہاڑی پر کام کرنے والوں کا روزگار چلا جاتا ہے اور یوں معاشرے میں بے روزگاری، بدامنی اور افراتفری مزید بڑھنے کے امکانات میں اضافہ ہوتا ہے۔

ڈاکٹر قیصر بنگالی کے مطابق پاکستان میں ایڈہاک اقتصادی پالیسیوں کی وجہ سے زراعت سمیت ہر شعبے کی پیداواری صلاحیت کم ہوتی جارہی ہے۔ برآمدات میں اضافہ نہیں ہورہا جب کہ اسٹاک مارکیٹ میں سٹے بازی کے لیے مصنوعی بہتری لائی جاتی ہے لیکن کسی شعبے میں حقیقی بہتری نظر نہیں آتی۔

ان کا کہناہے کہ قرض لے کر ملک چلانے کی پالیسیوں کا نتیجہ ہے کہ پرانے قرضے اتارنے کے لئے ہمیں مزید قرض لینا پڑتا ہے۔ ہم مسائل کے منجھدار میں پھنستے چلے جارہے ہیں اور نکلنے کا کوئی راستہ نظر نہیں آتا۔

انہوں نے مزید کہا کہ سیاسی بحران ملک کے معاشی مسائل کی اصل وجہ ہے۔ سیاسی بے یقینی کے سائے گہرے ہوتے رہے تو ملک کے اندر مہنگائی، بے روزگاری اور معاشی سست روی سے امن و امان کے مزید مسائل پیدا ہوں گے اور حالات بد سے بدتر ہوتے جائیں گے۔

’قیادت کو اتفاقِ رائے سے ٹائم فریم بنانا ہوگا‘

ایک اور ماہر ِمعیشت اور وزارت خزانہ میں سابق مشیر ڈاکٹر خاقان نجیب کا کہنا ہے کہ معاشی اعتبار سےمشکل حالات کا سامنا ہے۔ دنیا بھر کے مرکزی بینک اپنی معیشت کو سست کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس مشکل عالمی منظر نامے کے علاوہ پاکستان کو ادائیگیوں کے توازن کی صورت میں بھی مشکلات کا سامنا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ مالی سال 23-2022 میں پاکستان کو بیرونی قرضوں کی مد میں لگ بھگ 34 ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔ جبکہ سیلاب نے معاشی ترقی کے امکانات کو مزید معدوم کردیا ہے۔ ان حالات میں سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے معاشی پالیسی اور گورننس کی دشواریاں بڑھ رہی ہیں۔

ڈاکٹر خاقان نجیب کا کہنا ہے کہ مقامی اور غیر ملکی سرمایہ کار دونوں خوفزدہ ہیں اور ملک کے اندر غیر ملکی فنڈز کے بہاؤ بھی اسی وجہ سے محدود ہوگئے ہیں۔

وہ تجویز کرتے ہیں کہ سیاسی بے یقینی ختم کرنے کے لیے قیادت، اسٹیبلشمنٹ، مفکرین، سول سوسائٹی سبھی اگلے ایک سال کے لیے انتخابات کے انعقاد سمیت دیگر امور کا ٹائم فریم طے کرنے پر اتفاقِ رائے پیدا کریں۔ ورنہ معیشت کو مزید نقصان پہنچ سکتا ہے۔

  • 16x9 Image

    محمد ثاقب

    محمد ثاقب 2007 سے صحافت سے منسلک ہیں اور 2017 سے وائس آف امریکہ کے کراچی میں رپورٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ کئی دیگر ٹی وی چینلز اور غیر ملکی میڈیا کے لیے بھی کام کرچکے ہیں۔ ان کی دلچسپی کے شعبے سیاست، معیشت اور معاشرتی تفرقات ہیں۔ محمد ثاقب وائس آف امریکہ کے لیے ایک ٹی وی شو کی میزبانی بھی کر چکے ہیں۔

XS
SM
MD
LG