پاکستان کے سابق صدر اور سابق آرمی چیف جنرل (ریٹائرڈ) پرویز مشرف کی سزائے موت پر عمل درآمد رکوانے کے لیے لاہور ہائی کورٹ میں دائر درخواست پر سماعت ہوئی۔ دوران سماعت عدالت نے کہا کہ خصوصی عدالت نے جن بنیادوں پر پرویز مشرف کو سزائے موت سنائی ہم اسے نہیں دیکھ سکتے۔
پرویز مشرف کے وکیل خواجہ طارق رحیم نے دلائل دیے کہ پرویز مشرف کے خلاف غداری کیس کی منظوری وزیر اعظم کی بجائے وفاقی کابینہ کو دینی چاہیے تھی۔ لیکن، اس ضمن میں قانونی تقاضوں کو نظر انداز کیا گیا۔ لہٰذا، ٹرائل، قانونی عمل اور سزا قانون کے مطابق نہیں دی گئی۔
خیال رہے کہ مسلم لیگ (ن) کے دور حکومت میں سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف تین نومبر 2007 کو ایمرجنسی لگانے اور آئین توڑنے کے الزام میں سنگین غداری کا مقدمہ قائم کیا گیا تھا۔
لاہور ہائی کورٹ کے فل بینچ نے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کی سربراہی میں کیس کی سماعت کی۔ دیگر ججز میں جسٹس مسعود جہانگیر اور جسٹس امیر بھٹی شامل تھے۔
پرویز مشرف کے وکیل نے دلائل دیے کہ تین نومبر 2007 کے اقدامات غیر آئینی تو ہو سکتے ہیں۔ لیکن، انہیں سنگین غداری قرار نہیں دیا جا سکتا۔ دوران سماعت جج مظاہر علی اکبر نقوی نے ریمارکس دیے کہ جس کی شکایت پر ٹرائل ہوا اس شکایت کنندہ کے دستخط ہی نہیں ہیں۔
عدالت نے استفسار کیا کہ وفاقی حکومت نے شکایت درج کرانے کے لیے کسے نامزد کیا تھا؟ جس پر حکومتی وکیل نے جواب دیا کہ سیکریٹری داخلہ شاہد خان کے توسط سے درخواست جمع کرائی گئی تھی، جنہیں بیان کے لیے خصوصی عدالت نے طلب کیا تھا۔
پرویز مشرف کے وکیل اظہر صدیق ایڈوکیٹ نے کہا کہ آئین معطل کرنا یا ایمرجنسی لگانا آئین توڑنے کے مترادف نہیں ہے۔ لہذٰا، عدالت خصوصی عدالت کے فیصلے کو کالعدم قرار دے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل اشتیاق احمد خان نے عدالت کو بتایا کہ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے انکوائری کی تھی، جس میں پرویز مشرف کو قصور وار ٹھہرایا گیا تھا۔
عدالت نے کہا کہ یہ معاملہ اتنا آسان نہیں ہے۔ وکلا مزید تیاری کے ساتھ عدالت میں دلائل دیں۔
لاہور ہائی کورٹ نے وفاقی حکومت سے مزید ریکارڈ طلب کرتے ہوئے سماعت جمعے کے لیے ملتوی کر دی۔
کیس کی سماعت کے بعد وفاقی حکومت کے وکیل اشتیاق خان نے ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ جب پرویز مشرف کے خلاف کیس بنا تو وفاقی کابینہ سے منظوری نہیں لی گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ جو کام آئین اور قانون سے ہٹ کر ہو اسے نہ تو عدالتیں اور نہ ہی عوام تسلیم کر سکتے ہیں۔
اِس موقع پر پرویز مشرف کے وکیل اظہر صدیق نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو بتایا کہ استغاثہ ہی غیر قانونی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سنگین غداری ایکٹ میں 2010 میں ترمیم کی گئی۔ جس میں ایمرجنسی نافذ کرنے کے عمل کو بھی شامل کیا گیا۔
پرویز مشرف کی درخواست کیا ہے؟
پرویز مشرف نے ایڈوکیٹ اظہر صدیق کے توسط سے 27 دسمبر کو خصوصی عدالت کے فیصلے کے خلاف 86 صفحات پر مشتمل درخواست دائر کی تھی۔
درخواست میں موقف اخیتار کیا گیا تھا کہ خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کے خلاف عجلت میں فیصلہ کیا۔ اور اس ضمن میں کئی قانونی نکات کو نظر انداز کیا گیا۔
درخواست میں یہ بھی موقف اختیار کیا گیا کہ ملزم کو بیان ریکارڈ کرانے کا موقع دیے بغیر اس کے خلاف فیصلہ سنا دیا گیا۔
اس کے علاوہ خصوصی عدالت کے تفصیلی فیصلے کے پیرا نمبر 66 کو بھی چیلنج کیا گیا ہے۔
خیال رہے کہ گزشتہ ماہ سنگین غداری کیس کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت نے الزامات ثابت ہونے پر پرویز مشرف کو سزائے موت دینے کا حکم دیا تھا۔
تفصیلی فیصلے کے پیرا نمبر 66 میں خصوصی عدالت کے جج جسٹس وقار سیٹھ نے نوٹ لکھا تھا کہ مجرم کی سزا پر عمل درآمد کے لیے تمام تر وسائل بروئے کار لائے جائیں۔ اگر ملزم وفات پا جائے تو اس کی لاش کو گھسیٹ کر اسلام آباد کے ڈی چوک پر لایا جائے۔ اور اسے تین دن تک لٹکایا جائے۔
درخواست میں پیرا نمبر 66 کو ملزم کی تذلیل اور اسلامی روایات اور اخلاقیات کے منافی قرار دیتے ہوئے اسے کالعدم قرار دینے کی درخواست کی گئی تھی۔
خیال رہے کہ خصوصی عدالت نے گزشتہ ماہ 17 دسمبر کو تین نومبر 2007 کو پرویز مشرف کے اقدامات کو آئین شکنی اور غداری قرار دیا تھا۔ آرٹیکل چھ کے تحت الزام ثابت ہونے پر پرویز مشرف کو سزائے موت دینے کا حکم دیا گیا تھا۔
پاکستان کی فوج اور مختلف حلقوں نے اس فیصلے پر سخت ناپسندیدگی کا اظہار کیا تھا۔
پاکستان کی مسلح افواج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے بیان دیا تھا کہ پرویز مشرف کسی صورت غدار نہیں ہو سکتے۔