پاکستان کے صوبے خیبرپختونخوا کی حکومت نے پشاور بس منصوبے میں تاخیر کی تحقیقات وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے سپرد کرنے کے اقدام کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا ہے۔
منگل کو خیبرپختونخوا حکومت اور پشاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی (پی ڈی اے) نے الگ الگ پٹیشنز سپریم کورٹ آف پاکستان میں دائر کیں۔
پشاور ہائی کورٹ نے منصوبے میں تاخیر اور مبینہ گھپلوں کی تحقیقات کے لیے ایف آئی اے کو ٹاسک دیا تھا۔
پشاور میں کابینہ کے اجلاس کے بعد ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر اعلٰی خیبرپختونخوا کے مشیر اطلاعات اجمل خان وزیر کا کہنا تھا کہ تحقیقات سے منصوبہ مزید تاخیر کا شکار ہو سکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ منصوبے کے بیشتر حصے کا کام مکمل ہو چکا ہے جبکہ باقی ماندہ کام بھی آئندہ تین سے چار مہینے میں مکمل ہو جائے گا۔
پشاور ہائی کورٹ کے حکم پر ایف آئی اے نے رواں ماہ کے آغاز پر تحقیقات کا آغاز کر دیا تھا۔
بس منصوبے میں تاخیر اور مبینہ کرپشن کی تحقیقات کرنے والے ایف آئی اے کے عہدیداروں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ پشاور ترقیاتی ادارے (پی ڈی اے) حکام سے منصوبے سے متعلق دستاویزات حاصل کر لی ہیں۔
خیبر پختونخوا کے سابق وزیر اور سماجی اور سیاسی حلقوں کے قائم کردہ قومی جرگہ کے سربراہ مولانا امان اللہ نے حکومت کے اس فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت کرپشن کے خاتمے میں کتنی سنجیدہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ "اس منصوبے میں ہونے والے بدعنوانی پر پردہ ڈالنے یا بدعنوانی کو چھپانے کے لیے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرنا پاکستان تحریک انصاف کے اصل چہرے کو بے نقاب کرتا ہے۔"
پشاور بس منصوبہ ہے کیا؟
سابق وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے لگ بھگ 49 ارب روپے کے ابتدائی خرچ سے پشاور بس منصوبے کا افتتاح اکتوبر 2017 میں کرتے وقت اسے چھ مہینوں میں مکمل کرنے کا دعوٰی کیا تھا۔
تاہم، ابھی تک یہ منصوبہ مکمل نہیں ہو سکا جبکہ بعض ماہرین اور ناقدین کے بقول اب اس منصوبے کے اخراجات سو ارب تک پہنچ چکے ہیں۔ بس منصوبے پر پشاور کے کاروباری طبقے نے بھی تحفظات کا اظہار کیا تھا۔
پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ نے 5 دسمبر کو ایف آئی اے کو بس منصوبے میں ہونے والی مبینہ بدعنوانی کے بارے میں تحقیقات کرنے اور 45 دن کے اندر رپورٹ جمع کرنے کی ہدایت کی تھی۔
چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ نے گزشتہ سال جولائی میں قومی احتساب بیورو (نیب) کو بھی بس منصوبے میں مبینہ کرپشن کی تحقیقات کا حکم دیا تھا۔ تاہم، اس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔