پشاور ہائی کورٹ نے فوجی عدالتوں کے فیصلوں کے خلاف دائر درخواستوں پر فیصلہ سناتے ہوئے 200 افراد کی سزائیں کالعدم قرار دے کر اُنہیں رہا کرنے کا حکم دیا ہے۔
منگل کو پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ اور جسٹس نعیم انور پر مشتمل دو رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔
استغاثہ کی جانب سے تمام 200 افراد پر لگائے گئے الزامات کا مکمل ریکارڈ عدالت میں پیش کیا گیا۔
ریکارڈ کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد عدالت نے مختصر فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ تمام 200 افراد کو نہ صرف اعترافی بیانات پر سزائیں دی گئی ہیں بلکہ ان لوگوں کو ان کے دفاع اور فیئر ٹرائل کے حق سے بھی محروم رکھا گیا۔
پشاور ہائی کورٹ نے ہی 2018 میں اسی نوعیت کے ایک فیصلے میں فوجی عدالتوں کی جانب سے 73 افراد کے خلاف سنائے گئے فیصلوں کو کالعدم قرار دیا تھا۔ تاہم وفاقی حکومت نے پشاور ہائی کورٹ کے اس فیصلے پر سپریم کورٹ سے رجوع کر رکھا ہے۔
پشاور کے ایک سینئر وکیل بیرسٹر امیر اللہ خان چمکنی نے وائس آف امریکہ کے ساتھ بات چیت میں کہا کہ 73 افراد کو بری کرنے کے خلاف وفاقی حکومت کی سپریم کورٹ میں اپیل زیرِ سماعت ہے۔
اُن کے بقول پشاور ہائی کورٹ نے 2018 کے فیصلے کی روشنی میں ہی یہ فیصلہ سنایا ہے۔
امیر اللہ خان چمکنی نے پشاور ہائی کورٹ کے فوجی عدالتوں کے فیصلے کو کالعدم قرار دینے کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ آئین اور قانون کے مطابق تمام ملزمان کو دفاع اور فیئر ٹرائل کا حق حاصل ہے۔
جن ملزمان کی درخواستیں منظور کی گئیں ان میں وہ مبینہ دہشت گرد بھی شامل ہیں جنہوں نے عام افراد، سیکیورٹی فورسز اور سرکاری تنصیبات کو بھی نشانہ بنایا ہے۔
ان میں سے کئی ملزمان پر اعلٰی سرکاری عہدے داروں، قبائلی رہنماؤں اور سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کو ہلاک کرنے کے بھی الزامات ہیں۔
مجرموں کی رہائی کا یہ فیصلہ چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ نے سنایا ہے جو سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت کے رکن بھی تھے۔
انہوں نے مذکورہ کیس میں پرویز مشرف کو موت کی سزا سنانے کے ساتھ ساتھ ان کے بیرون ملک انتقال کی صورت میں ان کی لاش ملک میں لا کر تین دن تک پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے ڈی چوک میں لٹکانے کا حکم دیا تھا۔
پاکستان میں فوجی عدالتیں کیوں قائم کی گئیں؟
پاکستان میں 16 دسمبر 2014 میں پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں دہشت گرد حملے کے بعد قانون سازی کے ذریعے فوجی عدالتوں کو اختیارات دیے گئے تھے۔ جس کے تحت دہشت گردی کے واقعات میں ملوث عام شہریوں کے خلاف مقدمات سننے اور سزائیں دینے کا اختیار بھی ان عدالتوں کو دیا گیا تھا۔
بعدازاں ان عدالتوں کے قیام کی مدت میں مزید دو سال کی توسیع کر دی گئی تھی۔ البتہ جنوری 2015 میں قائم کی گئی ان عدالتوں کی مدت جنوری 2019 میں ختم ہو گئی تھی۔
پاکستان میں انسانی حقوق کی تنظیموں اور بعض وکلا تنظیموں کی جانب سے فوجی عدالتوں کے قیام کی مخالفت کی گئی تھی۔ پاکستان میں گزشتہ سال سے ہی فوجی عدالتوں کے قیام میں توسیع کا معاملہ زیرِ بحث ہے۔ البتہ اس حوالے سے سیاسی جماعتوں کے مابین تاحال اتفاق رائے نہیں ہو سکا۔