پشاور —
بچوں کی تعلیم خصوصاً لڑکیوں کے حقوق حصول علم کے لیے سرگرم پاکستانی طالبہ ملالہ یوسفزئی کی کتاب کی تقریب رونمائی منگل کو پشاور یونیورسٹی میں ہونا تھی لیکن منتظمین کے بقول صوبائی حکومت کے دباؤ پر اسے منسوخ کر دیا گیا۔
تاہم حکومتی عہدیداروں نے اس الزام کو مسترد کرتے ہوئے تقریب کے مجوزہ مقام کو نامناسب اور سکیورٹی خدشات کو کتاب کی رونمائی کی منسوخی کی وجہ بیان کیا۔
پشاور یونیورسٹی کے ایریا اسٹڈی سنٹر کے ڈائریکٹر ڈاکٹر سرفراز خان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ انھیں حکومتی عہدیداروں نے فون کرکے تقریب منسوخ کرنے کا کہا تھا۔
’’پہلے لوکل گورنمنٹ کے وزیر اور پھر اطلاعات کے وزیر کا (فون آیا) اور انھوں نے کہا کہ یہ آپ کیوں کر رہے ہو، مت کرو۔ تو میں نے کہا کہ آپ کا کیا کام ہے۔ یہ تو جمہوریت ہے، آزادی رائے ہے، یہ تو ہمارا کام ہے۔ پھر رجسٹرار کے ذریعے خط بھجوایا جس میں کہا گیا ہے اس کو روکا جائے، نا کیا جائے۔ اعلٰی پولیس افسر نے کہا کہ سکیورٹی نہیں دوں گا۔‘‘
صوبائی وزیر اطلاعات شاہ فرمان نے تقریب کو منسوخ کرنے کی ہدایت کا اعتراف تو کیا لیکن ان کا کہنا تھا کہ اس کی وجوہات کو منتظمین غلط انداز میں پیش کر رہے ہیں۔
’’ایریا اسڈیز سنٹر کا کام تو ایشیاء اور سینٹرل ایشیاء پر تحقیق کرنا ہے۔ نا تو اس کا تعلق نصاب کے ساتھ ہے، نا ملالہ کے ساتھ ادارے کا ذاتی تعلق ہے۔ یہ جب بھی چاہے رونمائی کر سکتے ہیں۔ پشاور پریس کلب کے اندر کریں، کسی ہوٹل میں، جہاں چاہیں کر سکتے ہیں۔ کتاب کی رونمائی پر پابندی نہیں ہے، اس کے مقام پر ہے۔ اس سے پنڈورا باکس کھل سکتا ہے اور پھر تعلیمی اداروں میں غیر ضروری سرگرمیاں شروع ہو جائیں گی۔‘‘
صوبائی وزیر کے اس موقف پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے ڈاکٹر سرفراز خان کا کہنا تھا۔
’’کتابوں کو پڑھنا، پڑھانا یہ ہمارا کام ہے۔ کتابوں کے آئیڈیا پر بات کرنا۔ یہ اظہار رائے کی آزادی بھی ہے اور ہم استادوں، پروفیسرز کا کام ہی یہی ہے۔‘‘
سوات سے تعلق رکھنے والی ملالہ یوسفزئی کو 2012ء میں طالبان شدت پسندوں نے اسکول سے گھر جاتے ہوئے فائرنگ کر کے شدید زخمی کر دیا تھا۔ لیکن برطانیہ میں علاج اور صحت یابی کے بعد اس پاکستانی طالبہ نے گزشتہ سال ’’آئی ایم ملالہ‘‘ کے عنوان سے سوات میں طالبان کے دور تسلط میں تعلیمی سرگرمیوں اور مشکلات کا احاطہ کیا۔
اس کتاب کو عالمی سطح پر خاصی پذیرائی حاصل ہوئی جب کہ تعلیم کے لیے ملالہ کی کوششوں کے اعتراف میں انھیں متعدد بین الاقوامی اعزازات سے بھی نوازا گیا۔ لیکن پاکستان میں طالبان شدت پسندوں نے اس کتاب کی شدید مذمت کی تھی۔
ادھر خیبر پختونخواہ میں برسراقتدار پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے منگل کو ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں صوبائی حکومت کے فیصلے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انھیں نہیں معلوم کہ ایسا کیوں کیا گیا۔ ان کے بقول ان کی جماعت اظہار رائے کی آزادی پر یقین رکھتی ہے۔
انٹرنیٹ پر سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر بھی خیبر پختونخواہ کی حکومت کے اس اقدام پر اکثر سیاسی و سماجی حلقوں کی طرف سے تنقید کی گئی۔
تاہم حکومتی عہدیداروں نے اس الزام کو مسترد کرتے ہوئے تقریب کے مجوزہ مقام کو نامناسب اور سکیورٹی خدشات کو کتاب کی رونمائی کی منسوخی کی وجہ بیان کیا۔
پشاور یونیورسٹی کے ایریا اسٹڈی سنٹر کے ڈائریکٹر ڈاکٹر سرفراز خان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ انھیں حکومتی عہدیداروں نے فون کرکے تقریب منسوخ کرنے کا کہا تھا۔
’’پہلے لوکل گورنمنٹ کے وزیر اور پھر اطلاعات کے وزیر کا (فون آیا) اور انھوں نے کہا کہ یہ آپ کیوں کر رہے ہو، مت کرو۔ تو میں نے کہا کہ آپ کا کیا کام ہے۔ یہ تو جمہوریت ہے، آزادی رائے ہے، یہ تو ہمارا کام ہے۔ پھر رجسٹرار کے ذریعے خط بھجوایا جس میں کہا گیا ہے اس کو روکا جائے، نا کیا جائے۔ اعلٰی پولیس افسر نے کہا کہ سکیورٹی نہیں دوں گا۔‘‘
صوبائی وزیر اطلاعات شاہ فرمان نے تقریب کو منسوخ کرنے کی ہدایت کا اعتراف تو کیا لیکن ان کا کہنا تھا کہ اس کی وجوہات کو منتظمین غلط انداز میں پیش کر رہے ہیں۔
’’ایریا اسڈیز سنٹر کا کام تو ایشیاء اور سینٹرل ایشیاء پر تحقیق کرنا ہے۔ نا تو اس کا تعلق نصاب کے ساتھ ہے، نا ملالہ کے ساتھ ادارے کا ذاتی تعلق ہے۔ یہ جب بھی چاہے رونمائی کر سکتے ہیں۔ پشاور پریس کلب کے اندر کریں، کسی ہوٹل میں، جہاں چاہیں کر سکتے ہیں۔ کتاب کی رونمائی پر پابندی نہیں ہے، اس کے مقام پر ہے۔ اس سے پنڈورا باکس کھل سکتا ہے اور پھر تعلیمی اداروں میں غیر ضروری سرگرمیاں شروع ہو جائیں گی۔‘‘
صوبائی وزیر کے اس موقف پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے ڈاکٹر سرفراز خان کا کہنا تھا۔
’’کتابوں کو پڑھنا، پڑھانا یہ ہمارا کام ہے۔ کتابوں کے آئیڈیا پر بات کرنا۔ یہ اظہار رائے کی آزادی بھی ہے اور ہم استادوں، پروفیسرز کا کام ہی یہی ہے۔‘‘
سوات سے تعلق رکھنے والی ملالہ یوسفزئی کو 2012ء میں طالبان شدت پسندوں نے اسکول سے گھر جاتے ہوئے فائرنگ کر کے شدید زخمی کر دیا تھا۔ لیکن برطانیہ میں علاج اور صحت یابی کے بعد اس پاکستانی طالبہ نے گزشتہ سال ’’آئی ایم ملالہ‘‘ کے عنوان سے سوات میں طالبان کے دور تسلط میں تعلیمی سرگرمیوں اور مشکلات کا احاطہ کیا۔
اس کتاب کو عالمی سطح پر خاصی پذیرائی حاصل ہوئی جب کہ تعلیم کے لیے ملالہ کی کوششوں کے اعتراف میں انھیں متعدد بین الاقوامی اعزازات سے بھی نوازا گیا۔ لیکن پاکستان میں طالبان شدت پسندوں نے اس کتاب کی شدید مذمت کی تھی۔
ادھر خیبر پختونخواہ میں برسراقتدار پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے منگل کو ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں صوبائی حکومت کے فیصلے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انھیں نہیں معلوم کہ ایسا کیوں کیا گیا۔ ان کے بقول ان کی جماعت اظہار رائے کی آزادی پر یقین رکھتی ہے۔
انٹرنیٹ پر سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر بھی خیبر پختونخواہ کی حکومت کے اس اقدام پر اکثر سیاسی و سماجی حلقوں کی طرف سے تنقید کی گئی۔