رسائی کے لنکس

پشاور یونیورسٹی میں دو ہفتوں میں دو قتل، اساتذہ اور ملازمین کی ہڑتال و دھرنا


فائل فوٹو
فائل فوٹو

خیبرپختونخوا کے دارالحکومت میں واقع پشاور یونیورسٹی کی حدود میں دوہفتوں کے دوران سیکیورٹی گارڈز کے ہاتھوں دو انتظامی افسران قتل ہو چکے ہیں جس کے خلاف اساتذہ اور ملازمین نے منگل سے غیر معینہ مدت تک ہڑتال شروع کر دی ہے۔

اساتذہ اور غیر تدریسی عملے نے پشاور یونیورسٹی کے وسط میں واقع پیوٹا چوک میں مطالبات کی منظوری کے لیے احتجاجی دھرنا بھی دیا ہے۔ مظاہرین یونیورسٹی کیمپس سے اسلحے کے خاتمے کے ساتھ ساتھ وائس چانسلر اور رجسٹرار کو عہدوں سے ہٹانے کے مطالبہ کر رہے ہیں۔

قبل ازیں پیر کو اس واقعے کے خلاف طلبہ تنظیموں کے اپیل پر کلاسز کا بائیکاٹ اور احتجاج کیا گیا تھا ۔

پشاور یونیورسٹی کی حدود میں اتوار کوسیکیورٹی گارڈ کے ہاتھوں نجی سیکیورٹی کمپنی کے سپروائزر ثقلین بنگش کی ہلاکت کا واقعہ ایسے وقت میں پیش آیا، جب دو ہفتے قبل 19 فروری کو پشاور یونیورسٹی کے اسلامیہ کالج میں انگلش کے لیکچرار بشیر احمد کو بھی ایک سیکیورٹی گارڈ نےفائرنگ کرکے قتل کر دیا تھا۔

پشاور کی پولیس کے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق ثقلین بنگش کے مبینہ قتل میں ملوث سیکیورٹی گارڈ مسعود کو ضلع خیبر کے علاقے جمرود سے گرفتار کر لیا گیا ہے ۔حکام کا کہنا ہے کہ پولیس کو دیے گئے ابتدائی بیان میں ملزم نے کہا ہے کہ گیٹ کھولنے کے دوران ہاتھ سے پستول گرنے کے سبب گولی چلی جو ثقلین بنگش کو جا لگی۔

دوسری جانب پشاور یونیورسٹی ٹیچرز ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ جب سیکیورٹی سپروائزر کو تحفظ حاصل نہیں ہے تو اساتذہ اور طلبہ کا عدم تحفظ کا شکار ہونا فطری امر ہے۔

ایسوسی ایشن نے مطالبہ کیا کہ وائس چانسلر انتظامی ناکامی تسلیم کرتے ہوئے عہدے سے استعفے دیں۔

پشاور یونیورسٹی کے افسر برائے تعلقات عامہ (پی آر او) نعمان خان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ سیکیورٹی سپروائزر کے قتل کی تحقیقات کے لیے یونیورسٹی انتظامیہ نے وائس چانسلر کی سربراہی میں سات رکنی ٹیم تشکیل دی ہے۔

خیال رہے کہ پاکستان کی جامعات میں طلبہ کے گروہوں کے تصادم کے واقعات رونما ہوتے رہے ہیں جس کے سبب کئی تعلیمی اداروں میں پرائیوٹ سیکیورٹی گارڈز کی خدمات حاصل کی گئی ہیں جب کہ بعض شہروں میں نیم فوجی دستے بھی تعلیمی اداروں کے اندر موجود ہیں۔

پشاور یونیورسٹی میں گارڈز کے ہاتھوں سیکیورٹی سپروائزر کے قتل اور تدریسی عمل معطل ہونے کے واقعے سےقبل لاہور کی پنجاب یونیورسٹی میں دو گروپوں کے درمیان لڑائی ہوئی تھی۔ پولیس نے اس واقعے میں ملوث طلبہ کے خلاف مقدمات درج کرکے متعدد افراد کو گرفتار کر لیا تھا۔ 10 دن پہلے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی قائد اعظم یونیورسٹی میں دو لسانی گروہوں کے درمیان جھگڑا ہوا تھا جس کے نتیجے میں یونیورسٹی کو غیر معینہ مدت کے لیے بند کر دیا گیا ہے۔

پاکستان کے تعلیمی اداروں میں پر تشدد واقعات پر سیاسی و سماجی حلقے ہمیشہ ہی تشویش کا اظہار کرتے رہے ہیں۔

اس حوالے سے سیاسی تجزیہ کار ڈاکٹر خادم حسین نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہنا تھا کہ سوال، مکالمہ اور منظم سیاسی عمل کی راہ میں حائل مشکلات سے سوال کرنے، سوچنے، اجتماعی مسائل پر رائے دینے، تخلیقی سرگرمیوں اور فیصلہ سازی میں طلبہ کی نمائندگی کا خاتمہ کیا گیا ہے۔

ان کے بقول طلبہ یونین پر مستقل پابندی لگانے سے انتظامی امور میں طلبہ کو نمائندگی سے محروم کیا گیا۔ ترقی پسند سوچ کو تحلیل کرنےکے لیے علاقائیت اور نسل پرستی کو بطور آلہ استعمال کیا گیا ۔

XS
SM
MD
LG