پشاور کے چڑیا گھر کی انتظامیہ نے لوگوں میں جانوروں سے لگاؤ بڑھانے اور جنگلی حٰیات سے آگاہی بڑھانے کے لیے ایک مہم شروع کی ہےجس کے تحت لوگ اپنی پسند کے جانوروں کی دیکھ بھال کے لیے انہیں ’ گود ‘ لے سکتے ہیں۔
لیکن مقامی میڈیا کے مطابق جانوروں کی سرپرستی یا انہیں ’ایڈاپٹ’ کرنے کی پیش کش سے متعلق یہ مہم صرف آگاہی فراہم کرنے کے لیے نہیں ہے بلکہ انتظامیہ نے چڑیا گھر میں موجود جانوروں کی دیکھ بھال کے لیے درکار وسائل پورے نہ ہونے کی وجہ سے شہریوں سے مدد طلب کی ہے۔
پشاور کے مقامی اخبار سے منسلک ایک سینئر صحافی ملک حسن زیب نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ انتظامیہ نے یہ اقدام وسائل نہ ملنے کی وجہ سے کیا ہے ۔ اس سلسلے میں انہوں نے چڑیا گھر کی انتظامیہ کی جانب سے وسائل کے فراہمی کے لیے لکھے گئے دو خطوط کا بھی حوالہ دیا ہے۔
چڑیا گھر کے ڈائریکٹر محمد نیاز خان کا مؤقف ہے کہ ان دو خطوط کے جواب میں صوبائی حکومت نے مطلوبہ فنڈز جاری کر دیے ہیں اور اب ان کے ادارے کی تمام مالی مشکلات حل ہوچکی ہیں۔
محمد نیاز خان کا کہنا ہے کہ در اصل عالمی سطح پر بالخصوص امریکی اور یورپی ممالک میں جنگلی حیوانات سے لگاؤ اور ان کے تحفظ کے لیے چڑیا گھروں میں جانوروں کی پرورش کے لیے عام لوگوں کو حصہ ملانے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ اسی مثال کو سامنے رکھتے ہوئے پشاور کے چڑیا گھر کی انتظامیہ نے بھی جانوروں سے محبت کرنے والوں کے لیے جانوروں کو گود لینے یا سرپرستی کرنے کے ایک منصوبے پر کام شروع کیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اس منصوبے کا اعلان چند روز پہلے کیا گیا تھا اور اس پر عوام کا بہت مثبت ردعمل آیا ہے لیکن ابھی تک کسی نے اس سلسلے میں رقم ادا نہیں کی ہے۔
ڈائریکٹر محمد نیاز نے بتایا کہ سرپرستی کے لیے جانوروں کی نشاندہی کردی گئی ہے۔ جو بھی ان کی دیکھ بھال کے لیے مقررہ اخراجات اٹھانے کی پیش کش قبول کرے گا اس جانور کے پنجرے پر بطور سرپرست ان کے نام کی تختی لگادی جائےگی۔ اس کے علاوہ جانوروں کو گود لینے والے شہریوں کو ماہانہ بنیادوں پر چڑیا گھر میں مفت داخلے کی اجازت ہوگی اور وہ اپنے زیرِ سرپرستی جانور کے پنجرے کے ساتھ مرضی کے مطابق بیٹھ کر وقت گزار سکیں گے۔
انتیس ایکڑ پر پھیلا چڑیا گھر
نجی ٹی وی سے منسلک ذیشان کاکا خیل نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ سابق وزیرِ اعلیٰ پرویز خٹک نے 2016میں پشاور یونیورسٹی سے ملحقہ علاقے راحت آباد میں لگ بھگ 29 ایکڑ اراضی پر چڑیا گھر کی تعمیر پر کام شروع کیا تھا اور اس کا باقاعدہ افتتاح 2018 کے انتخابات سے چند مہینے قبل ہوا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ابتداء میں اس چڑیا گھر میں غیر تربیت یافتہ عملہ بھرتی ہونے کی وجہ سے بہت سے جانوروں کا نقصان ہوا البتہ اب حالات قدرے بہتر ہیں۔
پشاور چڑیا گھر کے موجودہ ڈائریکٹر محمد نیاز کے مطابق اس وقت اس چڑیا گھر میں89 اقسام کے 1300 کے لگ بھگ جانور ہیں۔ جب کہ گود دینے یا پرورش کے لیے زیرِ سرپرستی دینے کے لیے 40 اقسام کے جانوروں کہ نشاندہی کی گئی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ بیرونِ ممالک رہائش پذیر پاکستانی یا غیر ملکی افراد بھی اس منصوبے میں شامل ہوسکتے ہیں۔
گود دینے کے لیے جانوروں کی درجہ بندی
پشاور چڑیا گھر کی انتظامیہ کے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق 30 سے 40 اقسام کے جانوروں کی چار درجہ بندیاں کی گئی ہیں۔ برونز کٹیگری میں تیتر اور مور وغیرہ کی ماہانہ فیس فی کس 416 روپے اور سالانہ پانچ ہزار روپے مقرر کی گئی ہے۔
سلور کیٹیگری میں مکاؤ طوطے وغیرہ کی ماہوار فیس 1250 روپے اور سالانہ 15000 روپے فی کس رکھی گئی ہے۔ اسی طرح ہرن اور زیبرا فی کس ماہوار فیس 2500 روپے اور سالانہ تیس ہزار روپے مقرر کی گئی ہے۔
کالے ریچھ، بھیڑیے، چمپینزی اور زرافہ کی سرپرستی کرنے والوں کو ان کی خوراک اور دیکھ بھال کے لیے ماہانہ فی کس 15 ہزار اور سالانہ ڈیڑھ لاکھ روپے ادا کرنا ہوں گے۔ افریقی بارہ سنگھا، اوریکس لا ما، کالے ہرن کی سرپرستی کے لیے ماہانہ 4250 روپے اور سالانہ50 ہزار روپے مقرر کیے گئے ہیں۔ جب کہ شیر ، چیتا وغیرہ کی سرپرستی کے لیے ماہانہ16 ہزار 666 روپے جبکہ سالانہ دو لاکھ روپے ادا کرنا ہوں گے۔
جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے سرگرم مقامی صحافی حسن زیب کا کہنا ہے کہ پشاور چڑیا گھر کے ڈائریکٹر محمد نیاز کا دعوٰی اپنی جگہ مگر وسائل اور تربیت یافتہ عملے کی عدم موجودگی کے وجہ سے پشاور کے چڑیا گھر کو بہت سے مسائل کا سامنا ہے۔
مقامی صحافی ذیشان کاکا خیل کا کہنا ہے کہ عام لوگوں میں جنگلی حیات کے بارے میں شعور کی کافی کمی ہے ۔ اس لیے چڑیا گھر جانے والے زیادہ تر لوگ جانوروں کو تنگ کرتے ہیں اور بعض انہیں تکلیف بھی پہنچاتے ہیں۔
ان کے بقول انتظامیہ کی جانوروں کو سرپرستی میں لینے کی پیش کش سے عام لوگوں میں جنگلی حیات کے تحفظ اور پرورش کے بارے میں آگاہی پھیلانے میں مدد ملے گی ۔