امریکی فوج کے سابق جنرل اور سنٹرل انٹیلی جنس ایجنسی کے سابق ڈائریکٹر ڈیوڈ پیٹریئس نے کہا ہے کہ افغانستاں میں طالبان کا تیزی سے کنٹرول حاصل کر لینا انٹیلی جنس کی ناکامی نہیں ہے، بلکہ موجودہ بحران کی وجہ یہ ہے کہ امریکہ نے اس اہم جنگ میں حکمت عملی کے تحت ضرورت کے مطابق صبر کا مظاہرہ نہیں کیا۔
واشنگٹن میں قائم تھنک ٹینک اٹلانٹک کونسل کے تحت ایک آن لائن سیمینار میں پیٹریئس نے کہا کہ امریکہ کے اسٹرٹیجک نوعیت کے صبر کے فقدان سے اس دو عشروں پر محیط جنگ میں حاصل کی گئی کامیابیاں خطرے میں پڑ گئی ہیں اور اس سے امریکہ کے دوسرے ممالک سے اتحاد کو بھی نقصان پہنچا ہے۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ کے افغانستان سے انخلا کے نئے تناظر میں القاعدہ اور داعش کے خلاف دہشت گردی کے خلاف جنگ میں انٹیلی جنس حاصل کرنے کی صلاحیت محدود ہو جائے گی، اگرچہ خطے میں دوسری جگہوں سے امریکہ انٹیلی جنس حاصل کرتا رہے گا۔
اس سلسلے میں انہوں نے کہا کہ مستقبل میں پاکستان کا کردار اہم ہو گا کہ وہ کتنے بہتر انداز میں اپنی سرزمین پر القاعدہ اور داعش کی طرف سے دہشت گردی کے خطرات کی نشاندہی کرے گا اور ان کا کس طرح قلع قمع کرے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ افغان طالبان کے بلوچستان اور شمالی افغانستان کے علاقوں سے نکل جانے سے اب پاکستان کے لیے دہشت گردوں کے خلاف اقدامات کرنا قدرے آسان ہوگا۔
واضح رہے کہ وہائٹ ہاؤس بھی اپنے دفاعی عہدیداروں کے ان اندازوں پر سنجیدگی سے غور کر رہا ہے کہ افغانستان میں طالبان کے قبضے کے بعد وہاں انٹیلی جنس کی معلومات حاصل کرنے میں دقت ہو سکتی ہے اور دہشت گردی کے خطرات بھی ہو سکتے ہیں تاہم بائیڈن انتطامیہ کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ طالبان بین الاقوامی طورپر خود کو تسلیم کروانا چاہیں گے اوریہی وہ نکتہ ہے جس پر انہیں کہا جا سکتا ہے کہ وہ دہشت گرد گروپوں کو فعال نہ ہونے دیں۔
جنرل پیٹریئس کا کہنا تھا کہ افغانستان میں کامیابی کے لیے دو عشروں کا وقت ناکافی تھا اور امریکہ ڈھائی سے ساڑھے تین ہزار فوجیوں کو افغانستان میں رکھ کر بہت کم لاگت اور جانوں کے زیاں کے بغیر طالبان کے پورے ملک پر کنٹرول حاصل کرنے سے پہلے جیسی صورت حال کو برقرار رکھ سکتا تھا۔
انھوں نے کہا کہ طالبان کے ملک پر کنٹرول حاصل کرنے کا تعلق کئی عوامل سے تھا جن میں جنگجوؤں کی افغانستان سے باہر پناہ گاہیں ہونا بھی تھا۔ انہوں نے کہا کہ یہ کہنا نامناسب ہے کہ افغان سیکیورٹی فورسز طالبان کا مقابلہ نہیں کر سکتی تھیں، کیونکہ پیٹرئیس کے بقول، انہوں نے گزشتہ کئی برسوں میں طالبان سے مقابلہ کیا۔
واضح رہے کہ افغانستان کے متعدد صوبوں میں پیش قدمی کے دوران طالبان کو افغان فورسز سے کسی مزاحمت کا سامنا نہین کرنا پڑا اور کابل بھی اسی طرح طالبان کے قبضے میں چلا گیا۔
امریکی صدر جو بائیڈن کا کہنا ہے کہ امریکہ افغان فورسز کو اسلحہ اور تربیت تو فراہم کر سکتا تھا مگر لڑنے پر آمادگی اور جذبہ نہیں۔
پیٹریئس نے امریکہ اور طالبان کے درمیان دو ہزار بیس میں طے پانے والے دوحہ معاہدے کو ناقص قرار دیا۔ انہوں نے بائیڈن انتظامیہ کے اس موقف کی تائید کی کہ افغانستان سے کسی بھی وقت انخلا مکمل طور پر ہموار نہیں ہو سکتا تھا، تاہم ان کا کہنا تھا کہ موجودہ انخلا تیزی میں کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ انخلا کےاعلان کے بعد افغان عوام کا اعتماد اٹھ گیا اور حالیہ واقعات سے امریکہ کے اتحادی ممالک کا اعتماد بری طرح متاثر ہوا۔
پیٹریئس نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اب طالبان کے کنٹرول میں افغانستان کئی صدیاں پیچھے چلا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ 1990 کی دہائی کے مقابلے میں طالبان کو کہیں زیادہ مشکلات کا سامنا ہو گا، کیونکہ امریکہ اور اس کے حلیف ممالک افغان حکومت کا بجٹ چلاتے تھے لیکن اب افغانستان کے اثاثے منجمند کردیے گئے ہیں۔ ان حالات میں کابل کی روشنیاں ماند پڑ سکتی ہیں اور بنیادی سروسز کا معیار گر جائے گا۔ آجکل کے انٹرنیٹ کے زمانے میں طالبان کے زیر اثر افغانستان کو ایک نئی حقیقت کا سامنا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ اب واشنگٹن کو سوچ و بچار کےذریعہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ افغانستان میں موجود نہ ہوتے ہوئے انسانی حقوق جیسے مسائل کے دفاع کے لیے کیسے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرسکتا ہے۔
اس سوال کے جواب میں کہ کیا چین اقتصادی سرمایہ کاری کے ذریعہ مستقبل میں امریکہ کے افغانستان پر اثر و رسوخ میں کمی لا سکتا ہے، پیٹریئس نے کہا کہ چین کی اقتصادی شراکت داری کا انداز مختلف ہے، وہ اپنے لوگوں کے ذریعے منصوبوں پر کام کرتا ہے۔ لہذا، چین کی شراکت داری سے افغانستان کو فوری طور پر وہ رقوم میسر نہیں ہوں گی جن سے وہ اپنی ضروریات پوری کرسکے۔
انہوں نے انتباہ کیا کہ اگر طالبان 1990 کی دہائی کے مقابلے میں اپنی پالیسیوں کو نرم نہیں کرتے تو اس بدلی ہوئی دنیا میں انہیں بڑے مصائب کا سامنا ہوگا۔
واضح رہے کہ افغانستان میں طالبان کی وسیع پیش قدمی اور بعد میں کابل سمیت پورے ملک پر ان کے قبضے کے دوران صدر بائیڈن اور ان کی انتظامیہ نے واضح کیا تھا کہ طاقت کے بل پر افغانستان میں طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا جائے گا۔