رسائی کے لنکس

طالبان کے خلاف مزاحمت کا گڑھ وادیٔ پنجشیر کیا واقعی ناقابلِ تسخیر ہے؟


سابق جنگجو کمانڈر احمد شاہ مسعود کے صاحبزادے احمد مسعود طالبان کے خلاف پنجشیر میں ایک مسلح گروپ کو منظم کر رہے ہیں۔
سابق جنگجو کمانڈر احمد شاہ مسعود کے صاحبزادے احمد مسعود طالبان کے خلاف پنجشیر میں ایک مسلح گروپ کو منظم کر رہے ہیں۔

طالبان کے کابل پر کنٹرول کے بعد جہاں حکومت سازی کے لیے طالبان اور مختلف افغان دھڑوں کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے تو وہیں شمالی افغانستان سے اب بھی مزاحمت کی آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔

طالبان کے خلاف مزاحمت کی علامت سمجھے جانے والے شمالی اتحاد کا گڑھ صوبہ پنج شیر اب بھی طالبان کے کنٹرول میں نہیں ہے جہاں سیکڑوں مسلح جنگجو فوجی مشقیں کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔

البتہ طالبان نے اتوار کو ایک بیان میں کہا ہے کہ اُن کے سیکڑوں جنگجو پنجشیر کا کنٹرول حاصل کرنے کے لیے روانہ ہو چکے ہیں اور تین اطراف سے اس کا محاصرہ بھی کر لیا ہے۔

افغانستان کا نگران صدر ہونے کے دعوے دار امراللہ صالح بھی وادیٔ پنجشیر میں روپوش ہیں۔ اتوار کو ایک ٹوئٹ میں اُنہوں نے دعویٰ کیا کہ طالبان نے پنجشیر پر حملے کی کوشش کی جسے ناکام بنا دیا گیا ہے۔

اُنہوں نے دعویٰ کیا کہ درۂ سالانگ کو مزاحمتی فورسز نے بند کر دیا ہے اور یہاں خطرناک کھائیاں ہیں طالبان کو جن سے دُور رہنا چاہیے۔

شمالی افغانستان میں طالبان کے مخالف جنگجو گروپ قومی مزاحمتی محاذ نے کہا ہے کہ وہ طالبان کے خلاف لڑائی اور مذاکرات دونوں کے لیے تیار ہیں۔

محاذ کا دعویٰ ہے کہ افغان سیکیورٹی فورسز اور اسپیشل فورسز کے کئی اہل کار بھی اُن کے شانہ بشانہ طالبان کے خلاف لڑنے کے لیے تیار ہیں۔

خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کو دیے گئے ایک حالیہ انٹرویو میں گروپ کے ترجمان علی میثم نظری نے بتایا تھا کہ قومی مزاحمتی محاذ نے وادیٔ پنجشیر میں نو ہزار جنگجوؤں کو طالبان کے خلاف لڑنے کے لیے منظم کر لیا ہے تاہم اُنہوں نے مذاکرات کا دروازہ بھی کھلا رکھا ہے۔

احمد مسعود کا کہنا ہے کہ وہ طالبان کے ساتھ مذاکرات اور جنگ دونوں کے لیے تیار ہیں۔
احمد مسعود کا کہنا ہے کہ وہ طالبان کے ساتھ مذاکرات اور جنگ دونوں کے لیے تیار ہیں۔

اس گروپ کے سربراہ شمالی اتحاد کے سابق کمانڈر احمد شاہ مسعود کے صاحبزادے احمد مسعود کر رہے ہیں۔ احمد شاہ مسعود کو امریکہ میں نائن الیون پر حملے سے دو روز قبل نو ستمبر کو مبینہ طور پر القاعدہ نے ہلاک کر دیا تھا۔

علی میثم نظری کا کہنا تھا کہ اُن کا گروپ خوں ریزی نہیں چاہتا تاہم وہ چاہتے ہیں کہ ملک میں انصاف، برابری، انسانی حقوق اور شخصی آزادیوں پر مشتمل نظام ہو۔

وادیٔ پنجشیر کی جغرافیائی اہمیت

شمالی افغانستان میں کابل سے تین گھنٹے کی مسافت پر صوبہ پنجشیر کی آبادی ایک لاکھ 73 ہزار نفوس پر مشتمل ہے جن میں اکثریت تاجک النسل باشندوں کی ہے۔

پاکستان کی سرحد کے قریب واقع اس وادی پر قبضہ کرنا ہر حملہ آور کا خواب ہی رہا ہے۔ اسی کی دہائی میں سوویت یونین کے افغانستان پر قبضے کے دوران بھی انہیں 10 برس تک اس علاقے میں مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تھا جس کی قیادت احمد مسعود کے والد احمد شاہ مسعود نے کی تھی۔

صوبہ پنجشیر کے سات اضلاع ہیں جب کہ اس کا صوبائی دارالحکومت بازارک ہے۔

سرسبز و شاداب پہاڑیوں اور ندیوں کی سرزمین وادیٔ پنجشیر سے کئی افغان سیاست دان اور جنگجو سیاسی محاذ میں سرگرم رہے ہیں۔

احمد مسعود کا کہنا ہے کہ اُن کے ہزاروں مسلح اہل کار طالبان کے خلاف لڑنے کے لیے تیار ہیں۔
احمد مسعود کا کہنا ہے کہ اُن کے ہزاروں مسلح اہل کار طالبان کے خلاف لڑنے کے لیے تیار ہیں۔

احمد شاہ مسعود کے خاندان کے علاوہ افغانستان کی قومی مصالحتی کونسل کے سربراہ عبداللہ عبداللہ، امراللہ صالح، سابق نائب صدر یونس قانونی، سابق جنگجو سردار جنرل قاسم فہیم اور افغانستان کے سابق وزیرِ دفاع بسم اللہ خان محمدی کا تعلق بھی پنجشیر سے ہے۔

کیا طالبان اس مرتبہ پنجشیر پر قبضہ کر پائیں گے؟

نوے کی دہائی میں بھی جب طالبان نے افغانستان کے مختلف صوبوں پر قبضہ کیا تھا تو اس وقت بھی وہ پنجشیر کا کنٹرول حاصل نہیں کر پائے تھے۔ احمد شاہ مسعود کی قیادت میں شمالی اتحاد نے پنجشیر میں طالبان کو اپنے قدم جمانے نہیں دیے تھے۔

افغان اُمور کے تجزیہ کار بریگیڈیئر (ر) محمود شاہ کہتے ہیں کہ کوہ ہندو کش کی بلند و بالا پہاڑیوں میں گھری وادیٔ پنجشیر اپنے محل و وقوع کی وجہ سے طالبان کی پہنچ سے دُور رہی ہے۔

اُن کے بقول یہ قدرتی طور پر ایک محفوظ علاقہ ہے جس کا ایک ہی راستہ کابل کی طرف نکلتا ہے جب کہ تین اطراف سے یہ ایک طرح سے بند ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہاں کسی بھی حملہ آور کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے بریگیڈیئر محمود شاہ کا کہنا تھا کہ احمد شاہ مسعود ایک پرعزم جنگجو تھا جس کے ساتھ کئی وفادار ساتھی طالبان کے ساتھ لڑتے رہے تھے۔

البتہ اُن کے بقول اب صورتِ حال مختلف ہے کیوں کہ احمد مسعود کے ساتھ جو جنگجو ہیں وہ اتنے پرعزم نہیں ہیں۔ لہذٰا طالبان نے پنجشیر کی جانب پیش قدمی کی تو وہ اس علاقے پر قبضہ کر سکتے ہیں۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ماضی میں طالبان کے خلاف مزاحمت کے لیے احمد شاہ مسعود اور شمالی اتحاد کو ایران کا تعاون بھی حاصل رہا ہے۔ تاہم اب ایران بھی طالبان کے ساتھ مذاکرات کر رہا ہے جس کے بعد احمد شاہ مسعود کے صاحبزادے احمد مسعود کے پاس بہت کم آپشنز باقی بچے ہیں۔

اس خبر کے لیے بعض معلومات خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' سے لی گئی ہیں۔

XS
SM
MD
LG