پاکستان کی قومی ائیر لائن پی آئی نے بھاری مالی نقصان اور بحران کے پیش نظر امریکہ کے شہر نیو یارک جانے والی پروازیں بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ پی آئی اے لاہور سے دو ہفتہ وار پروازیں نیویارک کے لیے چلاتی ہے جو مانچسٹر سے ہوتی ہوئی نیویارک جاتی ہیں۔ لیکن رواں ماہ کے بعد اب یہ پروازیں بند کردی جائیں گی۔ گزشتہ کئی سالوں سے اس روٹ پر ائیرلائن کو دو ارب روپے سالانہ کا نقصان برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔
وزیر اعظم پاکستان کے مشیر برائے شہری ہوابازی سردار مہتاب عباسی نے وائس آف امریکہ سے بات چیت کرتے ہوئے اس بات کی تصدیق کی کہ پی آئی اے کی نیویارک کے لئے ہفتہ وار پروازیں بند کی جارہی ہیں۔ اور اس کا مقصد ائیرلائنز کو درپیش مالی نقصان کو کم کرنا ہے۔
سردار مہتاب عباسی کا کہنا ہے کہ پی آئی اے کو دس سال میں 400 ارب روپے تک کا نقصان ہوچکا ہے۔ "پی آئی اے ٹائیٹینک بن چکا ہے جو کسی بھی وقت ڈوب سکتا ہے، اب اس ادارے کے پاس سنہرے ماضی کے سوا کچھ نہیں۔ لیکن میری کوشش ہے کہ اسے بچایا جاسکے۔"
پی آئی اے کو محض سال 2016 ہی میں تقریبا 40 ارب روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑا ہے۔
سردار مہتاب عباسی کا کہنا تھا کہ اب حکومت کی ترجیح ائیرلائن کو پرائیویٹائز کرنا نہیں بلکہ ادارے کی ری اسٹرکچرکنگ ہے۔ اور اس کے لئے جہازوں کی تزئین و آرائش کی جارہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پی آئی اے کے فلیٹ کو اپ گریڈ کرنے کا کام شروع کیا جائے گا۔ جس کے تحت پہلے مرحلے میں لانگ ہال پانچ ٹرپل سیون بوئنگ طیاروں کومکمل طور پر اپ گریڈ کیا جائے گا۔
سردار مہتاب نے اپنی ہی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کی پالیسیوں کے باعث پی آئی اے کو زیادہ نقصان ہوا۔ اوپن اسکائی پالیسی سے پی آئی اے کے مسافر خلیجی ممالک کی ائیرلائنز کو مل گئے۔ جس سے مالی نقصان میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ اور حکومت نے کبھی اس ادارے کی بہتری کو ترجیح میں شامل نہیں کیا۔
سردار مہتاب عباسی نے کہا کہ پی آئی اے کی مالی حالت کی بہتری کے لئے کابینہ میں بزنس پلان پیش کیا جائے گا۔ جس کے ذریعے حکومت سے ائیرلائن کے ذمے قرضے ادا کرنے کا کہا جائے گا۔ پی آئی اے کے ذمے مختلف اداروں کے 200 ارب روپے واجب الادا ہیں۔
اس وقت پی آئی اے کے پاس 32 جہازوں کا بیڑہ ہے جس میں کئی جہاز لیز پر حاصل کئے گئے ہیں۔ ادارے میں انتظامی بحران، ضرورت سے زیادہ ملازمین کی بھرتی اور پھر جہازوں کی بری حالت کے باعث پی آئی اے بارہ سال سے بھاری مالی خسارے کا شکار ہے۔
ماضی کی بہترین ائیرلائنز میں شمار کی جانے والی پی آئی اے کو انتظامی اور مالی بحران کے ساتھ منشیات کی اسمگلنگ کے پے درپے واقعات کے باعث بھی خفت اور شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
مالی بحران اور طیاروں کی کمی کے باعث پی آئی اے کی اندرون ملک پروازوں کا شیڈول بری طرح متاثر ہوتا ہے جس کے باعث مسافروں کی تعداد میں ہر سال متواتر کمی ریکارڈ کی جارہی ہے۔
پاکستان ائیرلائنز اس وقت 28 بین الاقوامی اور 25 ملکی ائیرپورٹس پر آپریٹ کررہی ہے۔ اکثر اہم بین الاقوای روٹس پر پہلے براہ راست پروازیں چلائی جاتی تھیں جو پہلے ایک سٹاپ اور پھر بند کرنے کی نوبت آپہنچی ہیں۔
شہری ہوا بازی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ پی آئی اے کے دوبارہ سے احیا کے لئے ادارے کے انتظامی ڈھانچہ کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے، مالی تنظیم نو، ضرورت سے زیادہ ملازمین سے چھٹکارہ اور سب سے بڑھ کر ائیرلائن کو سیاسی دباو سے آزاد کرنے کی ضرورت ہے۔ جبکہ حکومتی سطح پر اوپن اسکائی پالیسی کے بجائے فئیر اسکائی پالیسی اپنانے کی بھی ضرورت ہے جس سے پی آئی اے کے ساتھ مقامی ایوی ایشن انڈسٹری کو بھی فروغ ملے گا۔