افغانستان سے ملحقہ قبائلی ضلع جنوبی وزیرستان میں کسٹم حکام نے چلغوزں سے لدا ٹرک قبضے میں لے لیا ہے۔ ٹرک کو خیبرپختونخوا کے ڈیرہ اسماعیل خان میں کسٹم سینٹر میں منتقل کر دیا گیا ہے۔
خیبر پختونخوا کے کاروباری طبقے کا کہنا ہے کہ حکام کے اس اقدام سے اُن میں بے چینی پائی جاتی ہے۔ اس سے تاجروں کی مالی مشکلات میں اضافہ ہو گا۔ اس سے قبل حکام نے پشاور میں بھی چلغوزوں سے لدے ٹرک کو تحویل میں لے لیا تھا۔
جنوبی وزیرستان اور ٹانک کے پولیس حکام نے ٹرک تحویل میں لیے جانے کی تصدیق کی ہے۔ اطلاعات کے مطابق ٹرک میں کروڑوں روپے مالیت کی 52 بوریاں موجود ہیں۔
کسٹم حکام کا کہنا ہے ٹرک کو اسمگلنگ کے شبے میں تحویل میں لیا گیا ہے۔
جنوبی وزیرستان میں چلغوزے کے کاروبار سے وابستہ ایک تاجر رضوان اللہ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ 2016 میں حکومت کے ساتھ ایک معاہدہ کیا گیا ہے۔ معاہدے کے تحت مقامی پیداوار کو ہر قسم کے ٹیکس سے مستثنٰی کرنے پر اتفاق کیا گیا۔
اُنہوں نے کہا کہ افغانستان کے سرحدی علاقوں سے جنوبی وزیرستان منتقل کیے جانے والے چلغوزے پر سو روپے فی کلو گرام ٹیکس مقامی ایگری پارک کا ٹھیکے دار وصول کرتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود مذکورہ ٹرک کو تحویل میں لے لیا گیا۔
رضوان اللہ نے الزام لگایا کہ بعض اوقات ٹھیکے دار اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہل کار غیر ضروری طور پر تاجروں کو تنگ کرتے ہیں۔
جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی دلاور وزیر کا کہنا ہے کہ حکومت کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے ملک میں چلغوزوں کا کاروبار مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ اس کے ریٹ بھی مسلسل بڑھ رہے ہیں۔
رضوان اللہ کا کہنا ہے کہ پہلے افغانستان سے ملحقہ سرحدی علاقوں بالخصوص جنوبی وزیرستان سے چلغوزے وانا اور پھر لاہور کے راستے بیرون ملک برآمد کیے جاتے تھے۔ لیکن اب پاکستان میں اضافی ٹیکسوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ناروا رویے کے باعث کابل کے راستے پاکستانی چلغوزہ بیرون ملک برآمد کیا جا رہا ہے۔
پاکستان میں چلغوزوں کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ ہو گیا ہے۔ ملک کے مختلف حصوں میں بہتر کوالٹی کا چلغوزہ آٹھ سے دس ہزار روپے فی کلو گرام فروخت ہو رہا ہے۔