رسائی کے لنکس

شجاعت بخاری کے قتل کا منصوبہ پاکستان میں بنا: کشمیر پولیس


رائزنگ کشمیر کے مدیر شجاعت بخاری کو 14 جون کی شام سرینگر میں مسلح افراد نے نزدیک سے گولیاں مارکر ہلاک کیا تھا۔
رائزنگ کشمیر کے مدیر شجاعت بخاری کو 14 جون کی شام سرینگر میں مسلح افراد نے نزدیک سے گولیاں مارکر ہلاک کیا تھا۔

بھارتی کشمیر کی پولیس نے جمعرات کو دعویٰ کیا کہ سرکردہ صحافی اور انگریزی روزنامہ 'رائزنگ کشمیر' کے مدیرِ اعلیٰ سید شجاعت بخاری کے قتل میں ملوث چاروں افراد کی شناخت کرلی گئی ہے۔

سرینگر میں منعقدہ ایک نیوز کانفرنس میں انسپکٹر جنرل آف پولیس ایس پی پانی نے الزام لگایا کہ سرکردہ صحافی کو قتل کرنے کی سازش اور اس کو عملی جامہ پہنانے میں کالعدم عسکری تنظیم لشکرِ طیبہ ملوث ہے۔ انہوں نے کہا کہ سازش پاکستان میں تیار کی گئی اور اس میں وہاں مقیم لشکر کا ایک اہم رکن شیخ سجاد گُل پیش پیش رہا ہے۔ پولیس افسر نے بتایا کہ شیخ سجاد کا تعلق سرینگر کے زینہ کُوٹ علاقے سے ہے اور وہ گزشتہ ایک سال سے پاکستان میں رہ رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملزم ان کے بقول مارچ 2017 میں دھوکے سے حاصل کئے گئے بھارتی پاسپورٹ پر پاکستان چلا گیا۔

انہوں نے مزید بتایا کہ شجاعت بخاری کو قتل کرنے میں ملوث لشکرِ طیبہ کے تینوں جنگجوؤں کی بھی شںاخت کرلی گئی ہے۔ جیسا کی پولیس نے دعویٰ کیا کہ وہ نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر کے جنوبی اضلاع اننت ناگ اور کلگام کے آزاد احمد ملک عرف زید اور مظفر احمد بٹ اور پاکستانی شہری محمد نوید جھٹ عرف ابو ہنزلہ ہیں۔

محمد نوید بھٹ جس کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ پاکستانی پنجاب کے ساہیوال ملتان علاقے کا باشندہ ہے اس سال فروری میں پولیس کی حراست سے فرار ہونے میں کامیاب ہوا تھا۔ اُسے بھارتی فوج نے جون 2014 میں نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر کے جنوبی ضلع کلگام سے گرفتار کیا تھا۔ پولیس کے مطابق وہ لشکرِ طیبہ کا ایک اہم کمانڈر ہے اور آجکل جنوبی کشمیر میں سرگرم ہے۔

50 سالہ شجاعت بخاری کو 14 جون کی شام کو مسلح افراد نے اُس وقت نزدیک سے گولیاں مارکر ہلاک کیا تھا جب وہ شورش زدہ ریاست کے گرمائی صدر مقام سرینگر کے مشتاق پریس اینکلیو میں اپنے دفتر سے گھر جانے کے لئے گاڑی میں بیٹھ رہے تھے۔ اس حملے میں اُن کے دو ذاتی محافظ حمید چوہدری اور ممتاز اعوان بھی ہلاک ہوئے تھے۔

شجاعت بخاری کے قتل کی بین الاقوامی سطح پر مذمت کی گئی ہے اور اس میں ملوث افراد کو جلد از جلد کیفرِ کردار تک پہنچانے کا مطالبہ مقامی اور بین الاقوامی دونوں سطح پر زرو پکڑ رہا ہے۔

انسپکٹر جنرل آف پولیس پانی نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ پولیس کو ایسے ٹھوس تبوث ملے ہیں جو شجاعت بخاری کے قتل میں لشکرِ طیبہ کے ملوث ہونے کو ثابت کرتے ہیں۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا شجاعت بخاری کو صحافی ہونے یا کشمیر پر ٹریک ٹو محاذ پر جاری سرگرمیوں میں حصہ لینے کی وجہ سے ہدف بنایا گیا تو انہوں نے کہا کہ تحقیقات اس وقت جس مرحلے پر ہے اس کے پیشِ نظر ان کے لئے اس سوال کا جواب دینا مناسب نہیں ہوگا- انہوں نے سوال پوچھنے والے کو یہ جاننے کے لئے پولیس کی طرف سے فردِ جرم دائر کئے جانے تک انتظار کرنے کے لئے کہا۔

امریکہ اور اقوامِ متحدہ کی دہشت گرد تنظیموں کی لسٹ میں شامل لشکرِ طیبہ شجاعت بخاری کے قتل میں ملوث ہونے کے الزام کی تردید کر چکی ہے۔ اس نے بھارتی عہدیداروں اور ذرائع ابلاغ پر دروغ گوئی اور غلط خبریں پھیلانے کا الزام لگایا ہے۔

لشکرِ طیبہ نے واقعے کی تحقیقات کسی آزاد اور غیر جابندار عالمی ادارے یا ملک سے جو اس کے بقول چین یا روس ہوسکتا ہے کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔

شجاعت بخاری کے قتل میں لشکر طیبہ ملوث ہے: پولیس اہل کار
please wait

No media source currently available

0:00 0:01:48 0:00

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG