وزیراعظم شہباز شریف کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ افہام و تفہیم کی سیاست کرتے ہیں اور محاذ آرائی کے بجائے اسٹیبلشمنٹ کو ساتھ لے کر چلنے کے حامی رہے ہیں۔
سیاسی داؤ پیچ سے زیادہ شہباز شریف ایک اچھے منتظم کی شہرت رکھتے ہیں۔ وہ خاندان کے کاروبار میں بھی انتطامی امور دیکھا کرتے تھے۔ جب ان کے بڑے بھائی نواز شریف نے عملی سیاست میں قدم رکھا تو کاروبارِ حکومت سےمتعلق ان کی سمجھ بوجھ بھی پروان چڑھنا شروع ہوئی اور دونوں نے ایک ساتھ سیاست اوراقتدار کا اتار چڑھاؤ دیکھا۔نواز شریف تین مرتبہ ملک کے وزیرِ اعظم رہے جب کہ شہباز شریف بھی وزارتِ اعلیٰ کی ہیٹرک کرچکے ہیں۔
شہباز شریف 1993 سے 1996 تک پنجاب میں قائدِ حزبِ اختلاف رہے۔ 1997 میں وہ تیسری مرتبہ رکنِ پنجاب اسمبلی اور پہلی باراور وزیراعلٰی منتخب ہوئے۔اس کے بعد جب 1999 میں صدر پرویز مشرف نے نواز شریف حکومت کا تختہ الٹا تو پنجاب میں بھی حکومت تحلیل کر دی اور شہباز شریف گرفتار ہوگئے۔ بعدازاں وہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ جلا وطن ہوگئے۔جلا وطنی کے خاتمے کے بعد شہباز شریف 2008 میں دوسری اور 2013 میں تیسری بار وزیرِ اعلیٰ پنجاب بنے۔
تجزیہ کاروں کے نزدیک انتظامی امور میں تیزی سے فیصلہ سازی اور بیورکریسی سے متعلق ان کے فہم کی وجہ سے وہ ایک اچھے منتظم کی شہرت رکھتے ہیں جو سیاست کے عملی پہلوؤں پر زیادہ نظر رکھتا ہے۔ تاہم صوبے کے برعکس وفاق میں صرف انتظامی امور چلانے کا چیلنج درپیش نہیں ہوگا بلکہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات میں توازن رکھنے کے لیے انہیں دشوار گزار راستوں کا سفر کرنا پڑے گا۔
ایک صلح جو منتظم
اپنی انتظامی صلاحیتوں سے متعلق شہباز شریف نے جو بھی شناخت بنائی ہے اس کا تعلق پنجاب میں ان کی کارکردگی سے ہے۔ البتہ مبصرین کا خیال ہے کہ اب شہباز شریف کو وفاق میں صوبے کی سیاست سے ہٹ کر قومی مسائل کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے فیصلہ سازی کرنا پڑے گی۔
سینیئر بیورو کریٹ تسنیم نورانی کا کہنا ہے کہ شہباز شریف پنجاب میں حکومت کا جو کا تجربہ رکھتے ہیں، اس کا استعمال وفاق میں بھی کرنے کی کوشش کریں گے۔ لیکن وفاقی حکومت میں مسائل صوبے سے بہت مختلف ہوتے ہیں۔
شہباز شریف اور شریف خاندان کے قریب سمجھے جانے والے سینئر صحافی پرویز بشیر سمجھتے ہیں کہ شہباز شریف نے اپنے سیاسی کیرئیر کے آغاز میں جو تربیت لی وہ نواز شریف سے ہی لی تھی۔ جس میں جلدی فیصلے کرنا، اپنی ٹیم بنانا وغیرہ شامل ہیں۔
وفاق میں نواز شریف کی حکومت کے دوران اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات اور اہم فیصلوں میں شہباز شریف بھی شامل رہے ہیں۔
سینئر صحافی پرویز بشیر کی رائے میں اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات کے بارے میں شہباز شریف کا اپنے بھائی نواز شریف کے ساتھ بھی اختلافِ رائے رہا ہے کیوں کہ شہباز شریف افہام وتفہیم کی پالیسی پر عمل کرتے ہیں۔
اپنی بات جاری رکھتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ شہباز شریف کی یہ پالیسی پرویز مشرف کے دور میں بھی رہی تھی۔ اُس وقت وہ کہا کرتے کہ اُنہیں راستہ دے دینا چاہے اور’ان‘ کے ساتھ محاذ آرائی نہیں کرنی چاہیے۔
پرویز بشیر کے بقول جب ڈان لیکس کے معاملے پر اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ نواز شریف کی تعلقات میں کشیدگی بڑھی تو اُس میں بھی شہباز شریف کا یہی موقف تھا کہ قیادت کو سب سے بنا کر رکھنی چاہیے۔
’وہ جانتے ہیں کون سا ادارہ اہم ہے‘
پرویز بشیر کی رائے میں شہباز شریف سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی سیاست میں اسٹیبلشمنٹ ایک بڑا اور اہم عنصر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شہباز شریف نے ایک بڑا کام یہ کیا ہے کہ نواز شریف کو اپنے بیانیے کی طرف لے آئے ہیں اور اپنے بڑے بھائی کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ جو بھی معاملات تھے انہیں ٹالنے میں کامیاب رہے ہیں۔
ن لیگ کے دور میں کمشنر اور سیکرٹری تعلیم کے عہدوں پر کام کرنے والے سابق بیوروکریٹ تسنیم نورانی سمجھتے ہیں کہ شہباز شریف مزاجاً صلح پسند ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ کون سی شخصیت اور کون سا ادارہ اہم ہے۔ اُن کی طبیعت اکسانے والی نہیں ہے بلکہ وہ تعلقات بنا کر رکھنے اور کام جاری رکھنے پر یقین رکھتے ہیں۔
شہباز شریف 2018 کے عام انتخابات میں رکنِ قومی اسمبلی منتخب ہوئے اور قومی اسمبلی میں قائدِ حزب اختلاف مقرر ہوئے۔ اِسی دوران اُن کے خلاف اور جماعت کے دیگر ارکان کے خلاف مقدمات بنائے گئے۔
اِسی دوران شہباز شریف کو پاکستان مسلم لیگ ن کا صدر منتخب کیا گیا۔ ان کے بارے میں بارہا یہ چہ مگوئیاں بھی سامنے آتی رہیں کہ وہ اپنے بڑے بھائی نواز شریف کے مؤقف کے برعکس اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ گفت و شنید کے ذریعے سیاسی مسائل کا حل نکالنے پر اصرار کرتے رہے ہیں۔
نواز شریف سے مختلف وزیرِ اعظم
سابق بیوروکریٹ تسنیم نورانی کی رائے ہے کہ شہباز شریف اپنے بڑے بھائی نواز شریف کے مقابلے میں تیزی سے احکامات دیں گے اور تیزی سے دورے کریں گے جس کی وجہ سے وہ کام کرتے نظر آئیں گے۔
ان کے مطابق شہباز شریف چیزوں کو باریکی سے دیکھنے کے عادی ہیں جب کہ نواز شریف کا انداز اِس سے بڑا مختلف تھا۔ شہباز شریف کے پاس چوں کہ وقت کم ہے تو وہ اجلاس، کام اور مختلف رپورٹس پر زیادہ دھیان دیں گے۔ شہباز شریف دوسرے وزرائے اعظم اور نواز شریف کی نسبت زیادہ متحرک رہیں گے۔
تسنیم نورانی سمجھتے ہیں کہ شہباز شریف اَب جو اپنی ٹیم بنائیں گے وہ اُن کی پنجاب سے مطابقت رکھنے والی ٹیم ہوگی۔ان کے بقول جن بیورکریٹ نے شہباز شریف کے ساتھ پنجاب میں کام کیا ہے وہ بھی دوبارہ اِن کے ساتھ کام کرنے میں قدرے آسانی محسوس کریں گے۔
پرویز بشیر کے بقول شہباز شریف سیاسی معاملات میں اتنے متحرک نہیں ہیں جتنے اچھے وہ ایڈمنسٹریٹر ہیں۔
انہوں نے کہا کہ شہباز شریف جب اپنی ٹیم بناتے ہیں تو دیکھ لیتے ہیں کہ اُن کی طبیعت اور ترجیحات کے ساتھ کون چل سکتا ہے۔ اگر کوئی افسر شہباز شریف کے ساتھ نہیں چل سکتا تو اُنہیں سات دِنوں میں پتا چل جاتا ہے۔
پرویز بشیر کی رائے میں شہباز شریف کو رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے کیوں کہ انہیں ایک اتحادی حکومت چلانا ہوگی۔ اتحاد میں کچھ مسائل ہوتے ہیں۔ جس طرح پہلے دِن ہی جب انہوں نے اپنی تقریر میں ایم کیو ایم سے ہونے والے معاہدے کا ذکر نہیں کیا تو ایم کیو ایم نے اس پر ناراضی ظاہر کی تھی۔