برطانیہ کے وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون ہفتہ کو غیر اعلانیہ دورے پر افغانستان پہنچے اور ملک کے جنوبی حصے میں تعینات اپنے ہم وطن فوجیوں سے ملاقات کی۔
افغانستان میں برطانیہ کے سات ہزار نو سو فوجی تعینات ہیں اور بین الاقوامی اتحاد میں شامل یہ اہلکار 2014ء کے اختتام تک افغانستان سے انخلاء کے منصوبے کے تحت بتدریج اپنے ملک روانگی کی تیاریاں کر رہے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق برطانوی وزیراعظم افغانستان میں مصالحت کے عمل کے لیے کی جانی والی کوششوں کے تناظر میں بھی افغان حکام سے گفتگو کریں گے۔
افغانستان میں مصالحت کے عمل کے تناظر میں رواں ماہ قطر میں افغان طالبان نے اپنا دفتر کھولا تھا جہاں امریکہ اور طالبان کے درمیان براہ راست مذاکرات کا ابتدائی دور متوقع تھا لیکن صدر حامد کرزئی کی حکومت کے بعض تحفظات کے باعث یہ عمل شروع نہیں ہو سکا تھا۔
توقع کی جا رہی ہے کہ تعطل کے شکار ان مذاکرات کے بارے میں بھی ڈیوڈ کیمرون افغان حکومت سے بات چیت کریں گے۔
اُدھر پاکستان کے سرکاری میڈیا کے مطابق افغانستان کے بعد وزیراعظم کیمرون سرکاری دورے پر اسلام آباد پہنچ رہے ہیں۔
پڑوسی ملک سے بین الاقوامی افواج کے انخلاء کے تناظر میں بھی برطانوی وزیراعظم کے متوقع دورہ پاکستان کو خاصی اہمیت دی جارہی ہے۔
سرکاری میڈیا کے مطابق مہمان وزیراعظم اسلام آباد میں پاکستان کے صدر آصف علی زرداری اور اپنے ہم منصب نواز شریف سے ملاقاتیں کریں گے جس میں دونوں ملکوں کے مابین مختلف شعبوں میں تعاون بڑھانے سمیت خطے بالخصوص افغانستان میں مصالحتی عمل پر تبادلہ خیال متوقع ہے۔
پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان اعزاز احمد چودھری نے سرکاری ٹی وی سے بات کرتے ہوئے برطانوی وزیراعظم کے دورے کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ خطے میں امن کے لیے یہ بڑا سازگار ہے۔
’’ایک سہ فریقی مذاکراتی عمل ہے جس میں پاکستان، افغانستان اور برطانیہ شامل ہیں، اسی طرح ہندوستان کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے بھی برطانیہ خصوصی اہمیت کا حامل ہیں، ہم ان کے خیالات کو اور وہ ہمارے خیالات کو بہت قدر سے دیکھتے ہیں کیونکہ آپس میں ایک دوسرے کے مشورے سے ہم علاقے میں امن کو آگے بڑھا سکتے ہیں۔‘‘
ترجمان کا کہنا تھا کہ دونوں ملکوں میں تجارت اور اقتصادی تعلقات تیزی سے پروان چڑھ رہے ہیں۔
پاکستان اور برطانیہ صحت، تعلیم، دفاع اور تجارت سمیت مختلف شعبوں میں فروغ کے خواہاں ہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان سالانہ تجارتی حجم تین ارب ڈالر ہے۔
دریں اثناء اسلام آباد میں برطانوی ہائی کمیشن کے ترجمان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کی پاکستان آمد سے متعلق میڈیا کی خبروں پر کسی طرح کا تبصرہ کرنے سے گریز کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس بارے میں کسی طرح کی معلومات فراہم کرنے سے قاصر ہیں۔
افغانستان میں برطانیہ کے سات ہزار نو سو فوجی تعینات ہیں اور بین الاقوامی اتحاد میں شامل یہ اہلکار 2014ء کے اختتام تک افغانستان سے انخلاء کے منصوبے کے تحت بتدریج اپنے ملک روانگی کی تیاریاں کر رہے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق برطانوی وزیراعظم افغانستان میں مصالحت کے عمل کے لیے کی جانی والی کوششوں کے تناظر میں بھی افغان حکام سے گفتگو کریں گے۔
افغانستان میں مصالحت کے عمل کے تناظر میں رواں ماہ قطر میں افغان طالبان نے اپنا دفتر کھولا تھا جہاں امریکہ اور طالبان کے درمیان براہ راست مذاکرات کا ابتدائی دور متوقع تھا لیکن صدر حامد کرزئی کی حکومت کے بعض تحفظات کے باعث یہ عمل شروع نہیں ہو سکا تھا۔
توقع کی جا رہی ہے کہ تعطل کے شکار ان مذاکرات کے بارے میں بھی ڈیوڈ کیمرون افغان حکومت سے بات چیت کریں گے۔
اُدھر پاکستان کے سرکاری میڈیا کے مطابق افغانستان کے بعد وزیراعظم کیمرون سرکاری دورے پر اسلام آباد پہنچ رہے ہیں۔
پڑوسی ملک سے بین الاقوامی افواج کے انخلاء کے تناظر میں بھی برطانوی وزیراعظم کے متوقع دورہ پاکستان کو خاصی اہمیت دی جارہی ہے۔
سرکاری میڈیا کے مطابق مہمان وزیراعظم اسلام آباد میں پاکستان کے صدر آصف علی زرداری اور اپنے ہم منصب نواز شریف سے ملاقاتیں کریں گے جس میں دونوں ملکوں کے مابین مختلف شعبوں میں تعاون بڑھانے سمیت خطے بالخصوص افغانستان میں مصالحتی عمل پر تبادلہ خیال متوقع ہے۔
پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان اعزاز احمد چودھری نے سرکاری ٹی وی سے بات کرتے ہوئے برطانوی وزیراعظم کے دورے کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ خطے میں امن کے لیے یہ بڑا سازگار ہے۔
’’ایک سہ فریقی مذاکراتی عمل ہے جس میں پاکستان، افغانستان اور برطانیہ شامل ہیں، اسی طرح ہندوستان کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے بھی برطانیہ خصوصی اہمیت کا حامل ہیں، ہم ان کے خیالات کو اور وہ ہمارے خیالات کو بہت قدر سے دیکھتے ہیں کیونکہ آپس میں ایک دوسرے کے مشورے سے ہم علاقے میں امن کو آگے بڑھا سکتے ہیں۔‘‘
ترجمان کا کہنا تھا کہ دونوں ملکوں میں تجارت اور اقتصادی تعلقات تیزی سے پروان چڑھ رہے ہیں۔
پاکستان اور برطانیہ صحت، تعلیم، دفاع اور تجارت سمیت مختلف شعبوں میں فروغ کے خواہاں ہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان سالانہ تجارتی حجم تین ارب ڈالر ہے۔
دریں اثناء اسلام آباد میں برطانوی ہائی کمیشن کے ترجمان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کی پاکستان آمد سے متعلق میڈیا کی خبروں پر کسی طرح کا تبصرہ کرنے سے گریز کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس بارے میں کسی طرح کی معلومات فراہم کرنے سے قاصر ہیں۔