پاکستان کی حزبِ اختلاف کی بڑی جماعت مسلم لیگ (ن) کے حوالے سے مبصرین کا کہنا ہے کہ 2018 کے عام انتخابات کے بعد سے یہ جماعت اپنے بیانیے میں تذبذب کا شکار ہے۔
مسلم لیگ (ن) کے سربراہ اور سابق وزیرِ اعظم نواز شریف ریاستی اداروں کی سیاست میں مداخلت پر اعلانیہ تنقید کرتے ہیں۔ دوسری جانب ان کے بھائی اور پارٹی کے صدر شہباز شریف بیانات میں اداروں کے ساتھ محاذ آرائی کے بجائے مفاہمت پر زور دیتے ہیں۔
مزاحمت کے بیانیے کو لے کر کبھی نواز شریف اور ان کی صاحب زادی مریم نواز آگے دیکھائی دیتے ہیں تو کبھی شہباز شریف مفاہمانہ انداز میں پارٹی کی کمان سنبھالے ہوتے ہیں۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ (ن) حکمتِ عملی کے تحت دو رخی بیانیے اپنائے ہوئے ہے تاکہ پارٹی کے اندر موجود مفاہمت اور مزاحمت، دونوں سوچ رکھنے والے رہنماؤں کو ساتھ چلایا جاسکے۔
بدھ کو حزبِ اختلاف جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے سربراہی اجلاس کے بعد جب شہباز شریف سے پوچھا گیا کہ نواز شریف کے سخت بیانیے کے مقابلے میں آپ کا بیانیہ مفاہمانہ کیوں ہے؟ تو شہباز شریف نے کہا کہ مفاہمانہ سیاست کے نتیجے میں انہوں نے ذاتی طور پر 30 سال میں کیا حاصل کیا؟
اس سوال پر کہ ان کے جیل سے واپس آنے کے بعد سے حزبِ اختلاف کااتحاد غیر فعال ہے شہباز شریف کا کہنا تھا کہ پی ڈی ایم ان کی وجہ سے غیر فعال نہیں رہی۔ احتجاجی جلسے کرونا وائرس میں اضافے اور محرم الحرام کے احترام میں ملتوی کیے گئے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پی ڈی ایم اور مسلم لیگ (ن) کا مؤقف ہے کہ شفاف انتخابات اور آئین کی بالادستی ہونی چاہیے۔
مسلم لیگ مزاحمت کے بیانیے کے ساتھ انتخابات میں جائے گی؟
مبصرین کا کہنا ہے کہ شہباز شریف مفاہمانہ سیاست کے حامی ہونے کے باوجود نواز شریف کے سخت گیر مؤقف کی مخالفت نہیں کرسکتے۔
صحافی و تجزیہ کار سلیم بخاری کہتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) میں سے ش یعنی شہباز شریف کے نکلنے کی باتیں محض میڈیا تک محدود ہیں اور ابھی تک پارٹی میں ایسی کوئی دراڑ نہیں ہے نہ ہی کوئی رکن اسمبلی چھوڑ کر گیا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ شہباز شریف، نواز شریف کی نسبت اداروں سے محاذ آرائی نہیں چاہتے اور ان کے اداروں سے تعلقات کی بنا پر ہی نواز شریف ملک سے باہر جانے میں کامیاب رہے۔
انہوں نے کہا کہ شہباز شریف اپنی ان کوششوں کے باعث اب بھی اسٹیبلشمنٹ کی نظر میں نرم گوشہ رکھتے ہیں۔
سلیم بخاری کہتے ہیں کہ شہباز شریف اگرچہ اسٹیبلشمنٹ سے مزاحمت نہیں چاہتے تاہم وہ نواز شریف کے بیانیے کے مقابلے میں اپنا بیانیہ نہیں لانا چاہتے۔ یہی بات شہباز شریف نے پی ڈی ایم کے اجلاس کے بعد کہی کہ اگر وہ اپنا بیانیہ لے کر چلتے تو کچھ نہ کچھ نتیجہ نکال لیتے۔
سلیم بخاری کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ نواز شریف کے بیانیے کے ساتھ ہی انتخابات میں جائے گی جو کہ مزاحمت کا بیانیہ ہے۔ کیوں کہ نواز شریف یہ سمجھتے ہیں کہ کمزور صورتِ حال میں بات چیت کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ ووٹ کو عزت دو کے بیانیہ کے ساتھ کھڑی ہے البتہ نواز شریف خود سے اپنے بیانیے میں ترمیم کرلیں تو یہ اور بات ہے۔
کیا مفاہمت و مزاحمت کا بیانیہ پالیسی کے تحت چلایا جا رہا ہے؟
پنجاب کے سابق نگران وزیر اعلیٰ اور تجزیہ کار پروفیسر حسن عسکری کہتے ہیں کہ فی الوقت دونوں بیانیوں کو لے کر چلنا مسلم لیگ کے مفاد میں ہے۔ اس کے ذریعے پارٹی کے اندر مفاہمت اور مزاحمت دونوں سوچ رکھنے والوں کو ساتھ چلایا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ کو دو متضاد بیانیے اپنانے سے اندرونی طور پر مسائل کا سامنا ضرور ہے مگر وہ مسائل اس قدر نہیں ہیں کہ پارٹی کے ٹوٹنے کا خطرہ ہو۔
وہ کہتے ہیں کہ مفاہمت اور مزاحمت کا بیانیہ ایک سوچ و بچار کا عمل ہے جسے مستقل پالیسی کے تحت چلایا جا رہا ہے۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ انتخابات کے قریب آنے پر واضح مؤقف اپنانا ہو گا۔
حسن عسکری کہتے ہیں کہ ابھی انتخابات میں وقت باقی ہے اور موجودہ حالات میں ایک مؤقف پر سختی سے چلنے سے پارٹی کو نقصان ہوگا۔
وہ کہتے ہیں کہ انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کون سا بیانیہ اپنائے گی اس کا فیصلہ آئندہ ایک برس کے حالات کریں گے کہ پارٹی کے مختلف گروہ اپنا وزن کس طرف ڈالتے ہیں۔
حسن عسکری نے کہا کہ اگر نواز شریف آئندہ انتخابات میں لندن میں رہتے ہیں تو شہباز شریف کے لیے جگہ بن سکے گی کہ وہ انتخابات میں اپنے بیانیے کے ساتھ جا سکیں۔ البتہ سابق وزیرِ اعظم کی پاکستان میں موجودگی کی صورت میں مفاہمانہ بیانیہ اپنانا مشکل ہوگا۔