پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو ان دنوں حزب اختلاف کے علاوہ پارٹی رہنماؤں اور اتحادیوں کی جانب سے تنقید کا سامنا ہے۔
ایسے میں اسلام آباد اور پنجاب میں یہ قیاس آرائیاں زور پکڑ رہی ہیں کہ 2020 پنجاب میں بڑی سیاسی تبدیلیوں کا سال ہو گا۔ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق بل کی منظوری اور اتحادی جماعتوں کی ناراضگی کے بعد ماہرین کے مطابق پاکستان کا سیاسی منظر نامہ تبدیل ہو رہا ہے۔
پنجاب میں سابق حکمراں جماعت کے رہنما رانا ثناء اللہ نے عندیہ دیا ہے کہ صوبے میں تبدیلی کے لیے وہ مسلم لیگ (ق) کے ساتھ بھی ہاتھ ملانے کے لیے تیار ہیں۔ اس حوالے سے وزیر اعلٰی پنجاب عثمان بزدار کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کی چہ موگوئیاں بھی عروج پر ہیں۔
سینئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ اگلے مہینے یعنی فروری میں پنجاب میں سیاسی تبدیلیاں رُونما ہو سکتی ہیں۔ سہیل وڑائچ کا کہنا ہے "پنجاب میں تبدیلی آنے میں دو،چار ماہ لگ سکتے لیکن جنوری کے بعد تبدیلی کی ہوائیں چلنا شروع ہو جائیں گی۔"
پنجاب میں حکمراں جماعت سے تعلق رکھنے والے لگ بھگ 20 اراکین پنجاب اسمبلی نے مشترکہ طور پر اپنے مطالبات وزیر اعلٰی پنجاب کے سامنے رکھے ہیں۔ جن میں ترقیاتی فنڈز کے اجرا سمیت دیگر مطالبات شامل ہیں۔
مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق اس گروپ کو پریشر گروپ کا نام دیا جا رہا ہے۔ خیال رہے کہ تحریک انصاف کی پنجاب حکومت مسلم لیگ (ق) کے ساتھ اتحاد کے باعث قائم ہوئی تھی۔
سہیل وڑائچ کا کہنا ہے 18 ویں ترمیم کے بعد صوبوں کے اختیارات میں اضافہ ہوا ہے۔ قومی مالیاتی ایوارڈ (این ایف سی) اور وفاق سے ملنے والے حصے کے باعث صوبوں کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔
ان کے بقول انہی وجوہات کی بنیاد پر پنجاب حکومت کی کارکردگی کسی بھی حکمراں سیاسی جماعت کے لیے اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔
سینئر تجزیہ کار عارف نظامی سمجھتے ہیں کہ تبدیلی کی ہواؤں کا رُخ پنجاب کی طرف ہونے کی وجہ یہ ہے کہ وفاق کی طرح تحریک انصاف کا پنجاب میں بھی بہت کمزور اتحاد ہے اور مسلم لیگ (ق) کے بغیر حکومت کی اکثریت پنجاب میں ختم ہو سکتی ہے۔
عارف نظامی کا مزید کہنا تھا کہ اپوزیشن کی وجہ سے نہیں بلکہ تحریک انصاف کے اپنے آپس کے مسائل کی وجہ سے بھی پنجاب پر سب کی نظریں ہیں۔
کیا پنجاب میں تحریک عدم اعتماد آ سکتی ہے؟
سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ تحریک عدم اعتماد لانا صرف ایک سیاسی فیصلہ نہیں ہو گا۔ اس کا تعلق ملک کی مقتدر قوتوں کے ساتھ بھی ہے۔
عارف نطامی کا کہنا تھا کہ سیاست میں کچھ بھی ممکن ہے اور چوہدری برادران اور وفاقی حکومت میں شامل مسلم لیگ (ق) کے رہنما طارق بشیر چیمہ نے مسلم لیگ (ن) کے ساتھ اپنے رابطے بحال کر لیے ہیں۔ لہذا پنجاب حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائے جانے کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا۔
اتحادیوں کی ناراضگی
سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ (ق) نے عثمان بزدار کی ہمیشہ حمایت کی ہے۔ اگر وہ حکومت کے خلاف کھڑے ہو جاتے تو حکومت اور زیادہ مشکلات کا شکار ہو سکتی ہے۔
البتہ حکمراں جماعت کے فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے رُکن قومی اسمبلی کہتے ہیں کہ پنجاب میں کوئی تبدیلی نہیں آ رہی۔ ان کا کہنا ہے کہ اس قسم کی افواہیں افواہ ساز فیکٹریاں پھیلاتی ہیں۔جو چاہتی ہیں کہ صوبہ پنجاب کے اندر تحریک انصاف کی حکومت کو کمزور کیا جا سکے۔
کیا پنجاب حکومت کی کارکردگی پر تنقید جائز ہے؟
فرخ حبیب کہتے ہیں کہ وزیر اعلٰی پنجاب عثمان بزدار نے سابق وزیر اعلٰی پنجاب شہباز شریف کے مقابلے میں بہتر کارکردگی دکھائی ہے۔
اُن کا کہنا ہے کہ فرق صرف اتنا ہے کہ شہباز شریف اپنی زیادہ تشہیر کرتے تھے۔ لیکن عثمان بزدار زیادہ کام پر توجہ دیتے ہیں۔
فرخ حبیب کا کہنا ہے کہ پنجاب میں نئے اسپتال بن رہے ہیں۔ احساس پروگرام کا اجرا کر دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ عوامی فلاح کے دیگر منصوبے بھی شروع کیے گئے ہیں۔
عارف نظامی سمجھتے ہیں کہ پنجاب حکومت پر تنقید کرنا مناسب نہیں۔ کیونکہ پنجاب حکومت کو وزیراعظم عمران خان اسلام آباد سے چلا رہے ہیں۔
پنجاب حکومت کی کارکردگی اور اس پر ہونے والی تنقید سے متعلق سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ بیڈ گورننس ہے۔
'عثمان بزدار بے اختیار وزیر اعلٰی ہیں'
سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ پنجاب میں بیورو کریسی کو با اختیار کر کے عملی طور پر عثمان بزدار کو بے اختیار کر دیا گیا ہے۔
اُن کا کہنا ہے کہ اگر عثمان بزدار کام کر رہے ہوتے تو وزیر اعظم چیف سیکریٹری پنجاب اور آئی جی پولیس کو اختیارات نہ دیتے۔
عارف نظامی کا کہنا ہے کہ عمران خان کا یہ مسئلہ ہے کہ وہ اپنا فیصلہ درست ثابت کرنے کے لیے وقت کا انتظار کرتے ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ عثمان بزدار کارکردگی نہیں دکھا پا رہے۔
عارف نظامی کے بقول "عمران خان کی سوچ کرکٹ والی ہی ہے۔ جو فیصلہ کر لیا، مخالفت کے باوجود اسے درست ثابت کر کے دکھانا چاہتا ہیں۔"