پاکستان میں ان دنوں پینڈورا پیپرز کے ذریعے سامنے آنے والی خفیہ دستاویزات پر بحث جاری ہے جس میں پاکستان کے لگ بھگ 700 سیاست دانوں، بیورو کریٹس، کاروباری شخصیات اور سابق فوجی افسران اور ان کے اہلِ خانہ کی مبینہ طور پر آف شور کمپنیوں کی ملکیت کا انکشاف ہوا ہے۔
پاکستان میں جن اہم شخصیات کی آف شور کمپنیاں سامنے آئی ہیں ان میں وفاقی وزیرِ خزانہ شوکت ترین، حکمراں جماعت کے سینیٹر فیصل واوڈا، مسلم لیگ (ق) کے سینئر رہنما چوہدری مونس الہٰی اور سابق وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار کے صاحبزادے علی ڈار شامل ہیں۔
مذکورہ شخصیات اپنی آف شور کمپنیوں کی ملکیت کا دفاع کر رہی ہیں تاہم پاکستان کے قانونی اور سیاسی حلقوں میں یہ بحث جاری ہے کہ کیا آف شور کمپنیاں بنانا غیر قانونی ہیں یا یہ کسی مقصد کے لیے ایسی بنائی جاتی ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ جو سیاست دان انتخابات میں حصہ لیتے ہیں اُنہیں فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے علاوہ الیکشن کمیشن میں اپنے کاغذات نامزدگی جمع کراتے وقت اپنے تمام کاروبار ظاہر کرنا ہوتے ہیں جن میں لامحالہ ان آف شور کمپنیوں کا بتانا بھی ضروری ہوتا ہے۔
اسی طرح کاروباری شخصیات یا دیگر افراد کے لیے اپنے اثاثہ جات اور ٹیکس ریٹرنز میں آف شور کمپنیاں ظاہر کرنا لازمی ہوتا ہے۔
بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ عام طور پر یہ آف شور کمپنیاں ٹیکس بچانے اور اپنا پیسہ پاکستان سے باہر رکھنے کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔
آف شور کمپنی ہوتی کیا ہے؟
ماہرین کا کہنا ہے کہ آف شور کمپنیاں ایسے ممالک میں بنائی جاتی ہیں جہاں کاروباری منافع پر ٹیکس نہیں دینا پڑتا۔
ٹیکس اُمور کے ماہر ذیشان مرچنٹ کا کہنا ہے کہ آف شور کمپنی بنانا کوئی جرم نہیں ہے۔ دنیا کے کئی ممالک ایسے ہیں جو 'ٹیکس ہیون' سمجھے جاتے ہیں یعنی جہاں ٹیکس نہیں لگتا اور اس لیے لوگ وہاں اپنی کمپنیاں بناتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ذیشان مرچنٹ کا کہنا تھا کہ برمودا، برٹش ورجن آئی لینڈز یعنی کیربیئن میں برطانیہ کے زیرِ انتظام جزیرے، پاناما، لگزمبرگ اور نیدرلینڈز کا شمار ایسے ممالک میں ہوتا ہے جنہیں 'ٹیکس ہیون' سمجھا جاتا ہے۔
آف شور کمپنی کیوں بنائی جاتی ہے؟
ذیشان کہتے ہیں کہ آف شور کمپنیاں عام طور پر ٹیکس بچانے کے لیے بنائی جاتی ہیں۔ لہذٰا اسے ٹیکس چوری نہیں کہا جا سکتا ہے۔
ان کے بقول، "یہ ایک قانونی طریقہ ہے جس میں ایسے ملکوں میں سرمایہ کاری کی جاتی ہے جہاں کاروبار میں منافع پر زیادہ ٹیکس نہیں دینا پڑتا۔ مثال کے طور پر میں نے 10 کروڑ روپے جو پاکستان میں اپنے اثاثوں میں ڈیکلیئر کیے اور اس سے بیرونِ ملک کمپنی بنا کر نفع کمایا اور ٹیکس میں رعایت حاصل کی تو اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ کیوں کہ اگر میں یہ پیسہ پاکستان لاتا ہوں تو بطور پاکستانی شہری مجھے اس پر ٹیکس دینا ہو گا۔"
لیکن اُن کے بقول اگر ایسا پیسہ جس کی کوئی ٹریل نہیں کہ یہ پیسہ کہاں سے آیا اور اس کے ذریعے کوئی آف شور کمپنی بنائی تو پھر اس پر سوال اُٹھتا ہے۔
ٹیکس امور کے ماہر ذیشان مرچنٹ کہتے ہیں آف شور کمپنی کو قانونی طریقے سے بھی آپریٹ کیا جا سکتا ہے اور اگر کوئی اس کے ذریعے غیر قانونی پیسہ استعمال کرتا ہے تو یہ غلط ہے۔
'آف شور کمپنی بنانا کوئی جرم نہیں ہے'
لندن میں مقیم ٹیکس اُمور کے ماہر محمود مانڈوی والا بھی ذیشان مرچنٹ سے اتفاق کرتے ہیں۔
اُن کا کہنا ہے کہ پاکستان میں یہ تاثر عام ہے کہ شاید آف شور کمپنی بنانا جرم ہے۔ حالاں کہ ایسا نہیں ہے۔
اُن کے بقول آف شور کمپنیاں بنانا کاروبار کا ایک طریقہ ہے جو دنیا بھر میں رائج ہے۔
محمود مانڈوی والا کہتے ہیں کہ اگر آپ نے اپنا غیر قانونی پیسہ چھپانا ہے تو اس کے اور کئی طریقے ہیں، صرف آف شور کمپنیاں بنا کر پیسہ چھپانا ہی واحد طریقہ نہیں ہے۔
البتہ اُن کا کہنا تھا کہ عوامی نمائندے جو عوام کا ووٹ لے کر پارلیمنٹ میں آتے ہیں، اُنہیں ان کمپنیوں سے متعلق بتانا ضروری ہوتا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ کچھ عرصہ قبل تو خود حکومت نے ایمنسٹی اسکیم شروع کی تھی جس میں اجازت دی گئی تھی کہ اپنا کالا دھن سفید کر لیں، لہذٰا آف شور کمپنی کو کسی جرم سے جوڑنا درست نہیں۔
محمود مانڈوی والا کہتے ہیں کہ اب آف شور کمپنی بنانے کے ضوابط بہت سخت ہو چکے ہیں۔ کیوں کہ اب بتانا پڑتا ہے کہ کمپنی کا اصل مالک کون ہے۔
اُن کے بقول ٹیکنالوجی سے وابستہ کئی کاروبار ایسے ہیں جس میں اسٹیٹ بینک اجازت دیتا ہے کہ آف شور کمپنیاں بنائی جائیں جیسا کہ وفاقی وزیرِ خزانہ شوکت ترین نے پینڈورا پیپرز کے بعد اپنے وضاحتی بیان میں کہا ہے کہ ان کی آف شور کمپنیوں کا علم اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو پہلے سے تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ صرف پینڈورا پیپرز میں نام آنے کے بعد یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ہر شخص نے کرپشن کے ذریعے ہی آف شور کمپنی بنائی ہے۔
پاکستانی آف شور کمپنیاں کیوں بناتے ہیں؟
ذیشان مرچنٹ کہتے ہیں کہ عام طور پر پاکستانی ٹیکس بچانے کے لیے آف شور کمپنیز بناتے ہیں جسے خالصتاً ٹیکس چوری نہیں کہا جا سکتا۔
اُن کے بقول آف شور کمپنیاں بنانے والے اپنے سرمائے کا تحفظ بھی چاہتے ہیں اور آف شور کمپنی بنانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔
ذیشان مرچنٹ کے بقول بعض افراد دبئی میں کمپنیاں بناتے ہیں جس کا اُنہیں یہ فائدہ ہوتا ہے کہ نہ صرف اُنہیں بلکہ اُن کے اہلِ خانہ کو وہاں کا ریذیڈنس ویزا مل جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ آف شور کمپنیوں کے ذریعے کسی بھی کاروبار کا مرکزی دفتر اُس مذکورہ ملک میں قائم کر لیا جاتا ہے جب کہ دیگر ممالک میں ذیلی دفاتر قائم کیے جاتے ہیں۔ لہذٰا زیادہ سرمایہ مرکزی دفتر جائے گا جو اُس ملک میں ہوتا ہے جہاں ٹیکس کی بچت ہوتی ہے اور اگر آپ نے یہ پیسہ پاکستان لانا ہے تو وہ زرِ مبادلہ کی شکل میں پاکستان لایا جا سکتا ہے۔
'آف شور کمپنی پیسہ چھپانے کے لیے استعمال ہو سکتی ہے'
ذیشان مرچنٹ کہتے ہیں کہ کچھ لوگ آف شور کمپنی کو اپنا پیسہ چھپانے کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے لیئرنگ یعنی کئی کمپنیاں بنائی جاتی ہیں جس میں ایک کمپنی کے شیئر دوسری کمپنی خرید لیتی ہے اور اس طرح یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے اور اصل مالک کا پتا نہیں چلتا۔
خیال رہے کہ پاکستان کی جن اہم شخصیات کی آف شور کمپنیاں سامنے آئی ہیں ان میں سے بعض نے اپنے مؤقف میں ان کمپنیوں کا دفاع کرتے ہوئے اسے قانون کے مطابق قرار دیا ہے۔
البتہ پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ اس معاملے کی تحقیقات ہوں گی تاکہ یہ پتا لگایا جا سکے کہ کیا پیسہ پاکستان سے غیر قانونی طور پر منتقل تو نہیں ہوا؟