اسامہ بن لادن کی پاکستان میں امریکی فوجوں کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد تحریکِ طالبان پاکستان نے اِس کا بدلہ لینے کی دھمکی دی تھی۔پاک بحریہ پر ہونے والے دہشت گرد حملے کی ذمہ داری پاکستانی طالبان نے قبول کی ہے۔ تاہم، کچھ تجزیہ کاروں کے نزدیک اِس حملے میں ملوث افراد کا طریقہٴ کار اور تربیت مختلف نظر آتی ہے۔
اِس بات سے اتفاق کرتے ہوئے تجزیہ کار عامر رانا کا کہنا تھا کہ طالبان کے پاس اِس طرح کے حملے کرنے کی صلاحیت نہیں ہے۔
عامر رانا کے الفاظ میں، ’ اِس وقت پاکستان میں بہت سارے گروہ سرگرم ہیں، خاص طور پر کراچی کے واقعے میں جو مربوط گروہ لگ رہا ہے وہ کراچی کا مقامی شدت پسند گروپ اور القاعدہ کا لگ رہا ہے۔‘
’تحریک ِطالبان پاکستان کے پاس اِس قسم کے گوریلہ آپریشنز کرنے کی صلاحیت نہیں ہے۔ لاہور میں مناوا ہ اور جی ایچ کیو کے اوپر جتنے بھی حملے ہوئےاُن میں جو گروپ ملوث تھے وہ بنیادی طور پر پاکستان کے شدت پسند گروپ تھے جن کا تعلق براہِ راست القاعدہ کے ساتھ تھا۔ لیکن، بہت سارے گروپس کے افراد اِس کے اندر رہتے ہوئے اُن کے مقاصد، صلاحیت اور آپریشنل استعداد مختلف ہے۔ ‘
طالبان تحریک پاکستان کے جو بیشتر گروپس ہیں اُن کا فوکس قبائلی علاقے ہیں، خیبر پختونخواہ ہے یا زیادہ سے زیادہ اُن کی مہارت خود کش بم کے اندر ہے۔
اُنھوں نے مزید کہا کہ جہاں تک دیگر گروپس کا تعلق ہے، پچھلے چند سالوں میں ایک نئی بات دیکھی ہےجس کو پنجابی طالبان کہتے ہیں۔ اُن کا براہِ راست تعلق القاعدہ کے ساتھ زیادہ گہرا ہے۔
اِس بات کی مزید وضاحت کرتے ہوئے، برگیڈیئر(ر) اسد منیر نے کہا کہ یہ جہادی براہِ راست القاعدہ سے منسلک ہیں۔
اسد منیر کے بقول، ’اِس میں یا تو جہادی تنظیمیں یا یہ فرقہ وارانہ تنظیمیں ہیں اُن کے یہ افراد ہوں گے، اس میں پشتون کوئی نہیں ہوگا۔ وہ عام طور پر اِس طرح کے کام کر نہیں سکتے۔ وہ بنیادی طور پر جہادی ہیں۔ اور جھنگوی، سپاہِ صحابہ اِس طرح لوگ تربیت یافتہ ہیں جن کو یہ طریقہ آتا ہے۔‘
اُنھوں نے کہا کہ افغان طالبان، پاکستانی طالبان، جہادی ، لشکرِ جھنگوی، سپاہِ صحابہ، جیشِ محمد یہ سارے اسپلنٹر گروپ ہیں جن کو پنجابی طالبان کے نام سے جانا جاتا ہے، ’اُن کے ساتھ یہ کام کرتے ہیں اور ہو سکتا ہے کہ اُنھوں نے ہی اِن کی ٹاسکنگ کی ہو۔‘
برگیڈیئر اسد منیر کا جواب اثبات میں تھا جب اُن سے یہ پوچھا گیا کہ کیا وہ اِسے سکیورٹی کی ناکامی قرار دیں گے۔ اُن کے الفاظ میں ’ایک نالے کے ساتھ دیوار ہے جس کے اوپر نہ کوئی سکیورٹی لائٹس کا، سرچ لائٹ کا کوئی بندوبست نہیں، نہ وہاں مورچے بنے ہوئے تھے نہ سرچ ٹاور تھے۔ وہ سیڑھی سے چڑھ کر آئے ہیں اور اُنھوں نے تار کو کاٹا ہے۔ یہ بہت بڑا سکیورٹی لیپس ہے۔ جتنی سکیورٹی ہونی چاہیئے تھی اتنی وہاں پر نہیں تھی۔‘
آڈیو رپورٹ سنیئے: