صوبہ خیبر پختونخواکے دارالحکومت پشاور میں صوبے کے سرکاری پرائمری اسکولوں کے اساتذہ کا احتجاج جمعے کو دوسرے دن بھی جاری رہا جس میں مظاہرین حکومت سے تعلیمی قابلیت کے مطابق ترقی، الاؤنسز اور دیگر مراعات کا مطالبہ کررہے ہیں۔
احتجاج میں شامل اساتذہ پشاور شہر کی مصروف شاہراہ خیبر روڈ پر واقع صوبائی اسمبلی کی عمارت کے سامنے جمعرات سے احتجاج کررہے ہیں۔ گزشتہ روز یہ احتجاج اس وقت پرتشدد ہو گیا جب پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے کارروائی کا آغاز کیا۔
احتجاج کرنے والے اساتذہ کے مطابق پولیس نے آنسو گیس کے شیل استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ مظاہرین پر لاٹھی چار ج بھی کیا۔ دوسری جانب حکام کا کہنا ہے کہ مظاہرے کے دوران بعض اساتذہ کی طرف سے پولیس پر ہونے والے پتھراؤ سے 9 پولیس اہل کاروں سمیت متعدد افراد زخمی ہوگئے ہیں جس کےبعد پولیس کو کارروائی کرنا پڑی۔
پولیس نےاحتجاج کرنے والے 200سے زائد اساتذہ کے خلاف مقدمہ درج کرنے کے بعد متعدد کو گرفتار کرلیا ہے۔
ایک طرف اساتذہ کا احتجاج جاری ہے جبکہ دوسر ی جانب جمعے کو اساتذہ کی تنظیم کے پانچ رکنی وفد، سیکریٹری تعلیم اور دیگر عہدے داروں پر مشتمل سرکاری ٹیم کے درمیان مذاکرات بھی شروع ہو گئے۔ لیکن تاحال ان مذکرات کے بارے میں کوئی باضابطہ بیان سامنے نہیں آیا ہے۔
احتجاج کرنے والے اساتذہ بنیادی تنخواہوں کے گریڈ میں اضافے کے علاوہ حکومت سے پنشن کی رقم میں کٹوتی کے کا فیصلہ بھی واپس لینے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
احتجاج کا دوسرا دن
پرائمری ٹیچرز ایسوسی ایشن کے صدر عزیز اللہ خان کی اپیل پر پشاور سمیت صوبے کے مختلف علاقوں سے جمعرات کو پشاور پہنچنے والے اساتذہ گروپوں کی شکل میں جمعے کو ایک بار پھر خیبر پختونخوا اسمبلی کے سامنے رحمان بابا چوک کے قریب جمع ہونے شروع ہو گئے اور اپنے مطالبات کے حق میں احتجاجی دھرنا شروع کر دیا ۔
عزیز اللہ خان کے مطابق صوبائی دارالحکومت پشاور کے علاوہ سرکاری اسکولوں کے اساتذہ صوبے کے دیگر ضلعی ہیڈکوراٹرز میں بھی احتجاجی دھرنا دینے کے لیے جمع ہوئے ہیں۔
اساتذہ کی تنظیم کا مطالبہ ہے کہ صوبے کے پرائمری اسکولوں کے اساتذہ کو ان کی تعلیمی قابلیت کے مطابق بنیادی تنخواہ کا اسکیل 15 اور 16 دیا جائے ۔
تنظیم کا دعویٰ ہے کہ ماضی میں صوبائی وزیرِتعلیم شہرام خان اور دیگر اعلی سرکاری عہدے داروں نے ان کا یہ مطالبہ باضابطہ طور پر مان لیا تھا لیکن وعدے کے باوجود اس پر عمل درآمد نہیں کیا گیا ہے۔
مظاہرین پر ایف آئی آر
جمعرات کو شروع ہونے والے احتجاج کے دوران اساتذہ کے ایک وفد نے صوبائی حکومت کے ساتھ مذاکرات بھی کیے ۔ یہ مذاکرات شام تک جاری رہنے کے باوجود بار آور ثابت نہیں ہوسکے ۔
دوسری جانب پولیس نے لگ بھگ 200 سے زائد مظاہرین کے خلاف پشاور کے تھانہ شرقی میں مقدمات درج کیے ہیں۔
پولیس کا دعویٰ ہے کہ مظاہرین نے سرکاری امور میں مداخلت، پولیس فورس، سرکاری اہل کاروں اورانتظامیہ پر پتھراؤ کیا اس کے علاوہ سرکاری املاک کو نقصان بھی پہنچا یا۔ پولیس احتجاج کرنے والے متعدد مظاہرین کو گرفتار کرچکی ہے۔
دوسری جانب خیبرپختونخوا کے سرکاری اسکولوں کے اساتذہ کی تنظیم کے عہدے داروں عزیز اللہ خان اور معراج علی شاہ نے الزام عائد کیا ہے کہ پولیس فورس کے اہل کاروں اور افسران نے پُر امن احتجاج کو پر تشدد بنایا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جب وہ صوبائی وزیرِ تعلیم کے ساتھ مذاکرات کر رہے تھے تو اسی اثنا میں مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے پولیس نے کارروائی شروع کر دی۔
حکومت کا مؤقف
خیبرپختونخوا حکومت کے ترجمان بیرسٹر محمد علی سیف نے ایک بیان میں کہا ہے کہ جمعرات کو احتجاج کرنے والے اساتذہ اور وزیرِ تعلیم کے درمیان مذاکرات میں پیش رفت ہوئی تھی۔ لیکن مذاکراتی عمل کی تکمیل پر ان کے بقول احتجاج میں شامل بعض افراد نے پولیس پر پتھراؤ کیا جس کے رد عمل میں پولیس نے اساتذہ پر لاٹھی چارج کیا۔
انہوں نے کہا کہ حکومت نے کبھی بھی اساتذہ کے جائز مطالبات ماننے سے انکار نہیں کیا ہے اور اب بھی اس معاملے کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کےلیے تیار ہیں۔
دوسری جانب جماعت اسلامی پاکستان کے خیبرپختونخوا کے سابق صوبائی امیر سینیٹر مشتاق احمد خان نے جمعے کو اسلام آباد میں میڈیا کے ساتھ چیت میں پشاور میں اساتذہ پر ہونے والے تشدد پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اس کی مذمت کی۔
انہوں نے حکومت سے احتجاج کرنے والے اساتذہ کے ساتھ روا رکھے جانے والے پولیس کے رویہ کا نوٹس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔