رسائی کے لنکس

بھارت: مسلمان ملزمان پر سرِ عام تشدد کی تحقیقات کا حکم، ایمنسٹی انٹرنیشنل کی مذمت


فائل فوٹو
فائل فوٹو

انسانی حقوق کے بین الاقوامی ادارے ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھارتی ریاست گجرات میں مسلمانوں کی سرِ عام پٹائی کی مذمت کی ہے اور اسے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا ہے۔

ایمنسٹی نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ گجرات پولیس کا مسلمانوں کو بجلی کے ایک کھمبے سے باندھ کر لاٹھی سے ان کی پٹائی کرنا انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے اور اس سے پولیس کے ہاتھوں قانون کی سراسر بے حرمتی اور تضحیک کا پتا چلتا ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ"ہم گجرات کی پولیس کو یہ یاد دلاتے ہیں کہ قانون کے نفاذکی کارروائی کا مقصد سزا دینا کبھی نہیں رہا خواہ کم مہلک ہتھیاروں کا استعمال ہی کیوں نہ ہو۔ پولیس نے اس معاملے میں قانونی جواز، اس کی ضرورت اور جواب دہی کو صریحاً نظرانداز کیا ہے۔"

یاد رہے کہ گجرات کے کھیڑا ضلع کے اُندھیلا گاؤں میں منگل کو مقامی چوک میں کم از کم پانچ مسلمانوں کو یکے بعد دیگرے ایک بجلی کے کھمبے سے باندھ کر ان کی لاٹھی سے بری طرح پٹائی کی گئی۔ ان پر ہندوؤں کی مذہبی تقریب ’گربا ڈانس‘ پر پتھراؤ کرنے کا الزام تھا۔

اس موقع پر وہاں متعدد پولیس اہلکار اور ایک پولیس وین بھی تھی۔ وہاں ایک ہجوم بھی تھا جو مسلمانوں کی پٹائی پر خوشی کے نعرے لگا رہا تھا۔ مسلمانوں سے پٹائی کے بعد ہجوم سے دست بستہ معافی بھی منگوائی گئی۔

اس واقعے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد پولیس کارروائی کی سخت مذمت کی جا رہی ہے۔ گجرات کے انسانی حقوق کے ایک کارکن مجاہد نفیس نے اپنے وکیل آنند یاگنک کے توسط سے ریاستی حکومت اور پولیس کو قانونی نوٹس ارسال کیا ہے اور قصوروار پولیس اہلکاروں کے خلاف کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

سینئر کانگریس رہنما پی چدمبرم نے اس واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ پولیس جج اور سزا دینے والی بن گئی جو کہ غلط ہے۔

کانگریس کے رکن اسمبلی عمران کھیڑاوالا نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے الزام لگایا کہ گجرات میں دسمبر میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں اس لیے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) جان بوجھ کر مذہبی کشیدگی پیدا کر رہی ہے۔

یاد رہے کہ بی جے پی اس قسم کے الزامات کی ہمیشہ تردید کرتی رہی ہے۔

آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اور حیدرآباد سے رکن پارلیمان اسد الدین اویسی نے پٹائی کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں روزانہ انتہا پسندی کے واقعات دیکھے جا رہے ہیں۔ عوامی پٹائی اور ہجوم کے ہاتھوں تشدد عام بات بن گئی ہے۔ ہدف بنا کر مسلمانوں کے خلاف کارروائی کرنا آج کل انصاف مانا جا رہا ہے۔

متعدد مسلم تنظیموں نے بھی مسلمانوں کی سرعام پٹائی کی مذمت کی ہے۔ تقریباً دو درجن مسلم تنظیموں کے وفاق آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت نے قصوروار پولیس والوں کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔

مشاورت کے صدر نوید حامد کا وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہنا تھا کہ ایسا لگتا ہے کہ مختلف ریاستوں کی پولیس کو یہ پیغام دے دیا گیا ہے کہ وہ مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے انسانی حقوق کی کتنی ہی خلاف ورزی کریں ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوگی۔

ان کے مطابق پوری دنیا کی انسانی حقوق کی تنظیمیں ان واقعات پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔ مرکزی حکومت اور خاص طور پر وزیر اعظم نریندر مودی کو چاہیے کہ وہ ریاستی حکومتوں سے کہیں کہ ان واقعات سے دنیا میں بھار ت کی بدنامی ہو رہی ہے لہٰذا ایسے واقعات نہیں ہونے چاہئیں۔

اسی درمیان مدھیہ پردیش کے مندسور ضلع میں پولیس نے تین مسلمانوں کے گھروں کو بلڈوزر سے منہدم کر دیا۔ ان پر الزام تھا کہ انھوں نے گربا کے پنڈال پر پتھراؤ کیا ہے۔ اس معاملے میں 19 افراد کے خلاف کارروائی ہوئی اور سات کو حراست میں لیا گیا۔ اب پولیس کا کہنا ہے کہ جو مکانات مسمار کیے گئے ہیں وہ سرکاری زمین پر ناجائز قبضہ کرکے بنائے گئے تھے۔

سینئر کانگریس رہنما پی چدمبرم اور نوید حامد نے مدھیہ پردیش میں گربا ڈانس پر پتھراؤ کے ملزموں کے مکانات کو منہدم کرنے کی بھی مذمت کی۔ نوید حامد کے مطابق معمولی الزامات کی بنیاد پر بھی مسلمانوں کے گھروں کو مسمار کر دیا جاتا ہے۔

دہلی یونیورسٹی کے شعبہ ہندی میں استاد اور انسانی حقوق کے کارکن پروفیسر اپوروانند کا کہنا تھا کہ ملزموں کی سرعام پٹائی اور مکانوں کا انہدام سراسر غیر قانونی ہے۔

پولیس کا مؤقف

کھیڑا کے سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) راجیش گاڈھیا نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جن مسلمانوں کی پٹائی کی گئی انہوں نے مبینہ طور پر گربا کے پروگرام پر پتھراؤکیا تھا۔ اس معاملے میں 43 افراد کے خلاف کارروائی کی گئی ہے اور 18 کو گرفتار کیا گیا ہے۔

رپورٹس کے مطابق پولیس کے اعلیٰ عہدے داروں نے پٹائی کرنے والے شخص کی شناخت کر لی ہے۔ اس کا نام اے وی پرمار ہے اور وہ مقامی کرائم برانچ کے شعبے میں انسپکٹر ہے۔ دوسرا شخص جو اس کی معاونت کر رہا تھا وہ بھی کرائم برانچ میں ہے اور ا س کا نام ڈی بی کماوت ہے۔

ریاست کے ڈائریکٹر جنرل آف پولیس (ڈی جی پی) آشیش بھاٹیہ کے مطابق ویڈیو میں نظر آنے والے پولیس اہلکاروں کے خلاف تحقیقات کا حکم دے دیا گیا ہے۔ انھوں نے نشریاتی ادارے الجزیرہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جانچ کے بعد کارروائی کی جائے گی۔

دریں اثنا جمعرات کو کرناٹک کے بیدر ضلع میں پندرہویں صدی کی ایک مسجد اور مدرسے میں دسہرہ کے جلوس میں شامل متعدد افراد مبینہ طور پر گیٹ توڑ کر جبراً داخل ہو گئے۔ انھوں نے وہا ں پوجا کی اور مذہبی نعرے لگائے۔ اس عمارت کو محکمہ آثار قدیمہ کے تحت قومی ورثے کا درجہ حاصل ہے۔

اس واقعہ کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد مقامی مسلمانوں نے احتجاج کیا اور ’محمود گاواں مدرسہ و مسجد‘ میں داخل ہونے والوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔

ایک مقامی باشندے مبشر علی کی جانب سے مارکیٹ پولیس اسٹیشن میں رپورٹ درج کرانے کے بعد پولیس نے 9 افراد کے خلاف قانونی کارروائی کی اور چار کو گرفتار کر لیا۔ اس واقعہ کے کے بعد کشیدگی پیدا ہو گئی تھی لیکن ریاست کے وزیر داخلہ اراگا جنانیندرا نے جمعے کو بنگلور میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ لا اینڈ آرڈر کی صورت حال معمول کے مطابق ہے اور سیکیورٹی سخت کر دی گئی ہے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG