کراچی کے پوش علاقے ڈیفینس ہاؤسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) سے گزشتہ ہفتے اغوا ہونے والی 22 سالہ لڑکی کا کئی دن گزرنے کے باوجود اب تک کوئی سراغ نہیں مل سکا۔
دعا نثار منگی کو 30 نومبر کی رات ڈی ایچ اے کے بخاری کمرشل ایریا میں واقع ایک چائے کے ہوٹل کے باہر سے اسلحے کے زور پر اس وقت اغوا کیا گیا تھا جب وہ اپنے دوست حارث کے ساتھ چہل قدمی کر رہی تھیں۔
اس دوران کار سوار ملزمان نے فائرنگ بھی کی جس سے دعا کے ساتھ موجود حارث شدید زخمی ہو گئے تھے جو اسپتال میں زیرِ علاج ہیں۔
کراچی پولیس نے جائے وقوعہ پر موجود افراد اور لڑکی کے اہل خانہ سمیت دو درجن سے زائد افراد کے بیانات ریکارڈ کیے ہیں جن میں ہوٹل کا عملہ، قریب کھڑا رکشہ ڈرائیور، سیکیورٹی اہلکار اور لڑکی کی بہن جو کچھ فاصلے پر ہی موجود تھیں، شامل ہیں۔
جائے وقوعہ سے ملنے والے گولیوں کے خول سے بھی ملزمان تک پہنچنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ پولیس ایک مشکوک کار کا بھی سراغ لگانے کی کوشش کر رہی ہے، جس کے بارے میں شبہ ہے کہ اغوا کی واردات میں وہی کار استعمال ہوئی تھی۔
لیکن، سی سی ٹی وی فوٹیج غیر واضح ہونے کی وجہ سے پولیس کو گاڑی کا نمبر جانچنے میں مشکل در پیش ہے۔
پولیس نے واقعے کا مقدمہ پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 365 کے تحت درج کیا ہے۔ لیکن، اغوا کو تین روز گزر جانے کے بعد بھی پولیس کوئی ٹھوس شواہد حاصل نہیں کر سکی ہے۔
ڈی آئی جی کراچی جنوبی، شرجیل کھرل کے مطابق، واقعے کی تحقیقات کے لیے خصوصی ٹیم تشکیل دی گئی ہے جو موجود شواہد کی روشنی میں کام کر رہی ہے۔
پولیس ذرائع نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ دعا کے امریکہ میں قیام کے دوران ایک لڑکے کی جانب سے انہیں شادی کے لیے زور زبردستی کرنے اور دھمکیاں دینے کا بھی انکشاف ہوا ہے۔ لڑکے کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ وہ لاہور کا رہائشی ہے۔
ذرائع کے مطابق، پولیس اس زاویے پر بھی تفتیش کر رہی ہے۔ لیکن، ابھی اس بارے میں مزید معلومات اکٹھی کی جا رہی ہیں۔
ادھر انسانی حقوق کے کارکن اور سول سوسائٹی دعا منگی کے اغوا کی شدید الفاظ میں مذمت کر رہے ہیں۔
سول سوسائٹی نے نوجوان لڑکی کے اغوا کے خلاف احتجاج کرنے اور دھرنا دینے کا بھی اعلان کیا ہے جس میں شرکت کے لیے سوشل میڈیا پر لوگوں کو دعوت دی جا رہی ہے۔