نیوزی لینڈ میں پولیس نے رواں سال مارچ میں کرائسٹ چرچ کی دو مساجد میں فائرنگ کر کے 51 نمازیوں کو قتل کرنے والے ملزم پر دہشت گردی کی فردِ جرم عائد کر دی ہے۔
نیوزی لینڈ کے حکام کے مطابق یہ پہلا موقع ہے کہ ملک کی تاریخ میں کسی شخص پر دہشت گردی کے الزام میں مقدمہ چلایا جائے گا۔
ملزم برینٹن ٹیرنٹ کے خلاف پولیس پہلے ہی قتل کے 51 الزامات کے تحت فردِ جرم عدالت میں پیش کر چکی ہے جہاں اس کے خلاف مقدمے کی کارروائی جاری ہے۔ ملزم کے خلاف اقدامِ قتل کے 40 الزامات بھی فردِ جرم کا حصہ ہیں۔
منگل کو نیوزی لینڈ پولیس کے کمشنر مائیک بش کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ملزم کے خلاف پیش کی جانے والی فردِ جرم میں انسدادِ دہشت گردی کے قانون کی دفعات بھی شامل کی جا رہی ہیں جن میں الزام لگایا گیا ہے کہ کرائسٹ چرچ میں پیش آنے والا واقعہ دہشت گردی تھا۔
حکام کے مطابق نیوزی لینڈ میں انسدادِ دہشت گردی کا قانون 11 ستمبر 2001ء کے دہشت گرد حملوں کے بعد 2002ء میں متعارف کرایا گیا تھا اور ملکی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ اس قانون کے تحت کسی ملزم کو مقدمے کا سامنا کرنا پڑے گا۔
تاہم ماہرینِ قانون کا کہنا ہے کہ فردِ جرم میں دہشت گردی کی دفعات کے اضافے سے مقدمے پر عملاً کوئی فرق نہیں پڑے گا کیوں کہ قتل کے الزامات کے باعث ملزم کو ویسے ہی زیادہ سے زیادہ سزا ہونے کا امکان ہے۔
کرائسٹ چرچ کی دو مساجد میں 15 مارچ کو نمازِ جمعہ کے دوران ہونے والی فائرنگ کے نتیجے میں 51 نمازی ہلاک اور لگ بھگ 40 زخمی ہو گئے تھے۔
فائرنگ کا یہ واقعہ نیوزی لینڈ کی تاریخ کا سب سے بڑا اور بدترین واقعہ تھا جس نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔
فائرنگ کے واقعات کے کچھ ہی دیر کے بعد کرائسٹ چرچ کی پولیس نے حملوں کے الزام میں 28 سالہ برینٹن ہیریسن کو حراست میں لیا تھا جو آسٹریلوی شہری ہے اور کچھ ماہ سے نیوزی لینڈ میں مقیم تھا۔
پولیس کے مطابق ملزم سفید فام نسل پرست ہے جسے نیوزی لینڈ کے شہر آک لینڈ میں واقع انتہائی سخت سکیورٹی کی جیل میں رکھا گیا ہے۔
ملزم کے خلاف مقدمے کی اگلی سماعت 14 جون کو ہونی ہے۔