پاکستان کا صوبہ پنجاب اس وقت گورنر اور صوبائی کابینہ کے بغیر چل رہا جب کہ اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الہٰی بھی قائم مقام گورنر کا عہدہ سنبھالنے کو تیار نہیں جس کے باعث صوبے میں آئینی بحران بدستور برقرار ہے۔
آئینی ماہرین کے مطابق گورنر اور کابینہ نہ ہونے کی وجہ سے پنجاب میں آئینی اور انتظامی کام رکے ہوئے ہیں اور نہ ہی کوئی قانون سازی ہو رہی ہے۔
سیاسی ماہرین کے بقول صوبہ پنجاب میں نئی حکومت آنے کے باوجود سیاسی بحران بدستور برقرار ہے اور ایک کے بعد دوسرا مسئلہ سر اُٹھا رہا ہے۔
قانونی ماہرین سمجھتے ہیں کہ آئین کے مطابق گورنر کی غیر موجودگی میں اسپیکر پنجاب اسمبلی خودبخود قائم مقام گورنر تعینات ہو جاتا ہے۔ گورنر ایک آئینی عہدہ ہے جو خالی نہیں رکھا جا سکتا۔
پاکستان مسلم لیگ (ق) کی رُکن پنجاب اسمبلی خدیجہ عمر سمجھتی ہیں کہ صوبے میں حکمراں جماعت نے جس طریقے سے آئین کو پامال کیا اس کی مثال نہیں ملتی۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے خدیجہ عمر نے کہا کہ جس طرح غیر آئینی طریقے سے گورنر کو ہٹایا گیا اور وزیراعلٰی کو لایا گیا، اِس پر خاموش رہنا بھی جرم ہے۔
اسپیکر پنجاب اسمبلی کے بطور گورنر حلف نہ لینے کے حوالے سے خدیجہ عمر نے کہا کہ اُن کی جماعت حمزہ شہباز کو وزیراعلٰی نہیں مانتی۔ سب جانتے ہیں کہ وہ غیر آئینی طریقے سے وزیراعلٰی منتخب ہوئے ہیں۔
پاکستان تحریکِ انصاف کی رکن پنجاب اسمبلی مسرت جمشید چیمہ کہتی ہیں کہ اِب تک برسرِ اقتدار جماعت نے جتنے بھی کام کیے ہیں وہ سب آئین شکنی کے زمرے میں آتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ جب سے نئی وفاقی حکومت آئی ہے ملک تباہی کی طرف گامزن ہے۔ حکمرانوں کا ایک گروپ اقتدار میں رہناچاہتا ہے جب کہ دوسرا اقتدار چھوڑنے کے حق میں ہے۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کی رکن پنجاب اسمبلی حنا پرویز بٹ سمجھتی ہیں کہ پاکستان میں صدر اور گورنر کے عہدے آئینی ہیں، لیکن آئین سب سے سپریم ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ صدر وزیراعظم کی ہدایت پر گورنر لگا سکتا ہے۔ وزیراعظم نے آئین کے مطابق دو مرتبہ صدر کو گورنر لگانے سے متعلق لکھا لیکن اُنہوں نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔ اِسی طرح عمر سرفراز چیمہ نے بطور گورنر آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے وزیراعلٰی پنجاب سے حلف لینے سے انکار کیا۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز عمر سرفراز چیمہ نے اپنی پریس کانفرنس میں دعویٰ کیا کہ وہ اب بھی پنجاب کے گورنر ہیں۔ اِس سے قبل اُنہوں نے ایک ٹوئٹ میں کہا تھا کہ وہ کابینہ کے اُنہیں ان کے عہدے سے ہٹائے جانے کے مراسلے کو نہیں مانتے۔ انہوں نے مسلسل حمایت پر صدر عارف علوی شکریہ ادا کیا۔
لیگی رُکن اسمبلی کا کہنا تھا کہ پنجاب میں صوبائی کابینہ نہ ہونے سے صوبے میں کئی کام رکے ہوئے ہیں۔ دفاتر خالی پڑے ہیں جس کی وجہ سے صوبے کا نقصان ہو رہا ہے۔
وزیرِ اعلٰی کے حلف کا معاملہ عدالت میں
عدالت عالیہ لاہور میں نئے وزیر اعلی کے حلف کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر جسٹس صداقت علی خان کی سربراہی میں پانچ رکنی فل بینچ نے تحریکِ انصاف کے رہنماؤں محمود الرشید اورسبطین خان سمیت دیگر کی اپیلوں پر سماعت کی۔
فل بینچ میں جسٹس شاہد جمیل خان، جسٹس شہرام سرور چودھری، جسٹس محمد ساجد محمود سیٹھی اور جسٹس طارق سلیم شیخ شامل ہیں جس میں وفاقی اور صوبائی حکومت کو فریق بنایا گیا ہے۔
جمعرات کو سماعت کے دوران جسٹس صداقت علی نے درخواست گزاروں کے وکیل اظہر صدیق کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ آپ کا ایک وی لاگ سنا ۔ ایک طرف آپ اس کیس میں پیش ہو رہے ہیں وہاں بینچ پر کو اسکینڈلائز کر رہے ہیں۔ اب کافی ہو گیا، کیس کی بات کریں، کسی جج پر کیچڑ نہ اچھالیں۔ آئندہ اگر ایسا ہوا تو پہلے وکیل کا لائسنس معطل کریں گے پھر آگے کارروائی کریں گے۔
جسٹس صداقت علی خان کا کہنا تھا کہ وہ اس کیس کو ایک ماہ تک سننے کے بعد خارج بھی کر سکتے تھے۔ آپ کو بطور وکیل وی لاگ کرنے ہی نہیں چاہئیں، یہ آپ کا پیشہ نہیں ہے۔
یاد رہے کہ حمزہ شہباز نے 16 اپریل 2022 کو پنجاب اسمبلی کے ہنگامہ خیز اجلاس میں 197 ووٹ لے کر نئے قائدِ ایوان منتخب ہوئے تھے۔ اِس انتخاب کا پاکستان تحریکِ انصاف اور پاکستان مسلم لیگ (ق) نے بائیکاٹ کیا تھا۔ جس کے بعد 30 اپریل 2022 کو اُنہوں نے عدالت عالیہ کی ہدایت پر بطور وزیراعلٰی پنجاب حلف لیا تھا۔