گلگت بلتستان کی وادی ہنزہ میں عوامی ورکرز پارٹی (اے ڈبلیو پی) کے رہنما بابا جان جیل سے ضمانت پر رہائی کے بعد گھر پہنچ گئے ہیں۔
بابا جان اور ان کے متعدد ساتھیوں کو 2011 میں فسادات اور املاک کو نقصان کے الزام میں حراست میں لیا گیا تھا۔ اور ان پر دہشت گردی سمیت دیگر سنگین جرائم کی دفعات کے تحت مقدمات درج کیے گئے تھے۔
مبصرین کے مطابق ان سیاسی کارکنوں کی رہائی انتخابات سے قبل ہنزہ میں سیاسی رہنماؤں کی گرفتاری کے خلاف دیے جانے والے دھرنے کے باعث ممکن ہوئی۔ گلگت بلتستان کی نگران حکومت نے 30 نومبر سے قبل عوامی ورکرز پارٹی کے رہنماؤں کی رہائی کی یقین دہائی کرائی تھی۔
رہائی پانے والے بابا جان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ وہ اپنی رہائی پر بہت خوش ہیں۔ انہوں نے لوگوں کی حمایت پر اظہارِ تشکر بھی کیا۔
جیل جانے سے قبل کے وقت کو یاد کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ 2011 سے پہلے وہ بہت متحرک تھے۔ پہاڑں پر باآسانی چڑھ سکتے تھے۔ جب کہ اب ان میں وہ طاقت نہیں رہی۔ ان کے مطابق آئندہ چند دن میں وہ اپنا مکمل طبی معائنہ کرانے کے لیے ڈاکٹرز کے پاس جائیں گے۔
ہنزہ کے مقام پر 2010 میں لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے بننے والی عطا آباد جھیل کی وجہ سے متعدد دیہات اور باغات زیرِ آب آگئے تھے جس کے باعث مقامی لوگ عارضی پناہ گاہوں میں رہنے پر مجبور تھے۔ لوگوں کے لیے حکومت کی امداد کے لیے بابا جان نے دوسرے افراد کے ساتھ مل کر تحریک چلائی تھی۔ تا کہ مقامی افراد کو ان کا حق مل سکے۔
بابا جان کے مطابق ریاست ماں جیسی ہوتی ہے اور اس کی ذمہ داری ہے کہ اپنے شہریوں کو اس طرح عارضی قیام گاہوں میں نہ رکھا جائے بلکہ مستقبل بنیادوں پر گھر بنا کر دیے جائیں اور ان کے نقصان کا ازالہ کیا جائے۔
گلگت میں احتجاج میں 2011 میں مظاہرین اور پولیس کے درمیان تصادم میں باپ اور بیٹے کی موت ہوئی تھی۔ اس کے علاوہ پانچ افراد زخمی بھی ہوئے تھے جس کے بعد فسادات شروع ہو گئے تھے اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا گیا تھا۔
بابا جان کے مطابق وہ اس وقت مظاہرے میں شریک نہیں تھے بلکہ 40 کلومیٹر دور غلمت نگر میں ایک الگ عوامی اجتماع میں بیٹھے ہوئے تھے۔
اپنی گرفتاری کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ ایک جھوٹے مقدمے میں انہیں گرفتار کیا گیا اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
انہوں نے کہا کہ ایک مقدمے میں انہیں 40 سال جب کہ دوسرے میں 31 سال سزا سنائی گئی۔
بابا جان نے مزید بتایا کہ طویل جد و جہد کے بعد اب ان کی ضمانت ممکن ہو پائی ہے۔
رہائی عدالتی حکم کے باعث ہوئی: حکومتی ترجمان
گلگت بلتستان کے وزیرِ اعلیٰ کے ترجمان فیض اللہ فراق نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ بابا جان اور ان کے دیگر ساتھیوں کی ضمانت پر رہائی عدالت میں نظرِ ثانی درخواست کی بنیاد پر ہوئی ہے۔
اپنی رہائی کو بابا جان کسی ڈیل سے یکسر مسترد کرتے ہیں۔ ان کے مطابق ان کی رہائی عوام کے دباؤ کے نتیجے میں ممکن ہو پائی ہے۔ لوگوں نے دھرنا دیا ہوا تھا۔ شاہراہِ قراقرم جگہ جگہ سے بند تھی۔ نظام مفلوج ہو چکا تھا جس کے بعد گلگت بلتستان کے نگران وزیرِ اعلیٰ اور حکومتی نمائندوں نے عوام سے مذاکرات کیے۔ جس میں تمام قیدیوں کے کیسز کی سماعت تک رہائی پر آمادگی کا اظہار کیا گیا۔
اپنے مستقبل کے لائحہ عمل کے بارے میں بات کرتے ہوئے بابا جان نے بتایا کہ ان کی پُرامن جد و جہد تھی۔ پُر امن جد و جہد ہے اور پُر امن جد و جہد جاری رہے گی۔
بابا جان کا کہنا تھا کہ 71 برس سے گلگت بلتستان کے عوام کو بنیادی آئینی حقوق سے محروم رکھا گیا ہے۔ تمام امور کو ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے چلایا جا رہا ہے۔
ان کے مطابق حکومت یہاں کے عوام کو مختلف پیکجز دینے کے اعلانات کرتی ہے جب کہ ان کی نظر میں پیکجز، بونس یا تنخواہ ملازمین کے لیے ہوتے ہیں۔ جب کہ عوام کے لیے آئین ہوتا ہے جس کے ذریعے عوام کے مسائل حل کیے جاتے ہیں۔
بابا جان نے مزید بتایا کہ اکثر وفاق میں موجود حکمران گلگت بلتستان کے مسئلے کو مسئلہ کشمیر سے جوڑتے ہیں۔ ان کے مطابق اگر ایسا ہی ہے تو پھر گلگت بلتستان کو پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کی حیثیت کیوں نہیں دی جاتی؟
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کے آئین کی 18ویں ترمیم کا اطلاق گلگت بلتستان پر نہیں ہوتا۔ جب کہ 22 ویں ترمیم نافذ العمل ہے جس میں سزائیں ہیں۔ انسداد دہشت گردی کا قانون لاگو ہے۔ اسی طرح سیکیورٹی کی مد میں دوسرے تمام قوانین لاگو ہو رہے ہیں۔ لیکن صحت، تعلیم، بجلی، بنیادی انفراسٹرکچر تک رسائی نہ ہونے کے برابر ہے۔ حتیٰ کہ سپریم کورٹ تک رسائی نہیں ہے۔ اس طرح انصاف کے دروازے گلگت بلتستان کے عوام پر بند ہیں۔
یاد رہے کہ رواں ماہ کے آغاز میں وزیرِ اعظم عمران خان نے دورۂ گلگت بلتستان کے موقع اس علاقے کو عبوری صوبہ بنانے کا اعلان کیا تھا۔ تاہم انہوں نے اس اقدام کے لیے متعین وقت کا ذکر نہیں کیا۔
گلگت بلتستان کی حیثیت میں کسی بھی تبدیلی کے لیے آئینی ترمیم کی ضرورت ہو گی۔ اگر پاکستان کے آئین میں ترمیم کی جاتی ہے تو گلگت بلتستان بطور پانچواں صوبہ ملک میں شامل ہو گا۔
بھارت کی حکومت، پاکستان کے اس ممکنہ اقدام پر سخت معترض ہے۔
گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی عبد الرحمٰن بخاری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہ بابا جان کی مقبولیت بہت بڑھ چکی ہے۔ اب ان کی مقبولیت ہنزہ سے نکل کر پورے گلگت بلتستان تک پھیل چکی ہے۔ اور رہائی کے بعد اب وہ ہیرو بن کر سامنے آئے ہیں۔
سینئر صحافی عبد الرحمٰن بخاری، بابا جان کو اس وقت سے جانتے ہیں جب انہوں نے عملی سیاست میں قدم نہیں رکھا تھا۔ اور وہ گاؤں کی سطح پر متحرک تھے۔
عبدالرحمٰن بخاری کے مطابق ضلع نگر میں آئندہ 60 دن میں ضمنی انتخاب متوقع ہے۔ انتخابی حلقے نگر-4 کے مکین بابا جان کو بطور امیدوار انتخاب میں حصہ لینے پر اصرار کر رہے ہیں۔
گلگت بلتستان کی قانون ساز اسمبلی کے 15 نومبر کو ہونے والے انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے امیدوار امجد حسین ایڈووکیٹ نے گلگت کے حلقہ– 1 اور نگر کے حلقہ-4 سے کامیابی حاصل کی ہے۔ جس کے بعد وہ ممکنہ طور پر نگر–4 کی سیٹ سے دستبردار ہوں گے اور اس حلقے میں ضمنی انتخاب ہو گا۔
البتہ بابا جان کا کہنا ہے کہ ان کو ضمانت پر رہا کیا گیا ہے اور ابھی تک مقدمے کا فیصلہ نہیں ہوا۔ اس لیے وہ خود انتخابات میں بطور امیدوار حصہ نہیں لے سکتے۔ تاہم وہ اپنی سیاسی جماعت کے کارکنوں سے رابطہ کرنے کے بعد ضمنی انتخاب کے حوالے سے حکمت عملی طے کریں گے۔