پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں اور اعلیٰ فوجی حکام کے درمیان گلگت بلتستان کو عبوری طور پر ملک کا پانچواں صوبہ بنانے کے سلسلے میں اتفاق ہوا ہے۔
اعلیٰ فوجی حکام سے گزشتہ ہفتے ملاقات میں تمام جماعتوں نے گلگت بلتستان میں نومبر میں انتخابات کے بعد اس امر کو یقینی بنانے پر اتفاق کیا۔
ملاقات کا انکشاف ذرائع ابلاغ پر ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب حزبِ اختلاف کی کل جماعتی کانفرنس میں سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے اسٹیبلشمنٹ کی سیاسی معاملات میں مداخلت کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔
اس ملاقات کے بارے میں سرکاری سطح پر حکومت یا فوج نے کوئی باضابطہ بیان تو جاری نہیں کیا۔ البتہ حکومتی عہدیدار اور حزبِ اختلاف کے رہنما ملاقات کی تصدیق ضرور کر رہے ہیں۔
حکومتی ذرائع کے مطابق آرمی چیف سے سیاسی قیادت کی ملاقات سے قبل حکومت اور حزبِ اختلاف کے درمیان گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ بنانے پر تبادلہ خیال ہوا تھا۔
حزبِ اختلاف کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کا کہنا تھا کہ مستقبل کے فیصلے گلگت بلتستان کے عوام کو اعتماد میں لے کر کرنے چاہئیں۔ لہذٰا یہاں آزاد، منصفانہ اور بر وقت انتخابات ہونے چاہئیں۔
دوسری جانب آرمی چیف سے ملاقات میں شریک وفاقی وزیرِ ریلوے شیخ رشید احمد نے میڈیا سے گفتگو میں کہنا تھا کہ تمام شرکا نے گلگت بلتستان کو عارضی طور پر پاکستان کا پانچواں صوبہ بنانے پر اتفاق کیا۔
ان کے بقول پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے اس حوالے سے ایسی تمام تجاویز کو گلگت بلتستان میں ائندہ انتخابات کے بعد زیرِ غور لانے پر زور دیا۔
شیخ رشید احمد کا کہنا تھا کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور آئی ایس آئی کے ڈی جی لیفٹننٹ جنرل فیض حمید نے سیاسی جماعتوں کے پارلیمانی رہنماؤں سے ملاقات کی۔ ملاقات گلگت بلتستان میں آئندہ انتخابات اور عبوری صوبہ بنائے جانے کے حوالے سے ہوئی۔
ان کے بقول یہ ملاقات تقریباََ ساڑھے تین گھنٹے جاری رہی۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ کسی سیاسی جماعت نے بھی اس سے اختلاف نہیں کیا۔
سیاسی مبصرین کے مطابق گلگت بلتستان اور کشمیر چوںکہ متنازع علاقے ہیں، اس لیے ان کی نمائندگی کے بغیر پاکستان کی سیاسی جماعتیں تمام فیصلے خود سے نہیں کر سکتیں۔
تاہم شیخ رشید کہتے ہیں کہ ملاقات میں پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے وزیر اعظم موجود تھے اور انہوں نے اس عمل سے پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کو علیحدہ رہنے کو ترجیح دی اور گلگت بلتستان کے معاملے پر کوئی بات نہیں کی۔
گلگت بلتستان کی قانون ساز اسمبلی کے لیے عام انتخابات 15 نومبر کو ہوں گے جس کی منظوری صدرِ پاکستان ڈاکٹر عارف علوی دے چکے ہیں۔
قبل ازیں گلگت بلتستان میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت پانچ سال کی مدت مکمل ہونے پر تحلیل ہو گئی ہے۔ الیکشن کمشن نے دو جولائی کو انتخابی شیڈول جاری کیا تھا جس کے تحت 18 اگست کو پولنگ ہونی تھی۔
تاہم مسلم لیگ (ن) سمیت بعض جماعتوں کی گلگت بلتستان چیف کورٹ میں دائر کردہ درخواست پر انتخابات کو ملتوی کر دیا گیا تھا۔
ایک جانب جہاں پاکستان کی بیشتر سیاسی جماعتیں گلگت بلتستان کو بطور عبوری صوبہ بنانے کے حق میں ہیں۔ تو دوسری جانب گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے متعدد سیاسی رہنما کہتے ہیں کہ ایسے اقدام سے 'کشمیر کاز' کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔
'پاکستان کی حکومت ایسا چین کے کہنے پر کرنے جا رہی ہے'
گزشتہ آٹھ سال سے گلگت بلتستان اسمبلی کے رکن نواز خان ناجی اس تجویز سے اختلاف کرتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے نواز خان ناجی نے بتایا کہ اس سے قبل چار مرتبہ ایسی ہی قرار دادیں گلگت بلتستان کی اسمبلی میں پیش ہو چکی ہیں جس کی تمام لوگوں نے حمایت جب کہ انہوں نے مخالفت کی تھی۔
انہوں نے مزید بتایا کہ پاکستان کے اپنے ہی نکتۂ نظر سے گلگت بلتستان جموں و کشمیر ریاست کا حصہ ہے۔ سات دہائیوں سے اسے متنازع علاقہ ہی تسلیم کیا جاتا رہا تھا۔
نواز خان ناجی کے مطابق پاکستان اور گلگت بلتستان کا فائدہ اسی میں ہی ہے کہ اسے زیادہ سے زیادہ خود مختاری دی جائے نہ کہ اسے ضم کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی حکومت ایسا چین کے کہنے پر کرنے جا رہی ہے۔ اور ایسا امریکہ اور چین کے درمیان تناؤ کی وجہ سے ہونے جا رہا ہے۔
انہوں نے وضاحت کی کہ اب تک پاکستان کے لیے خطے میں مسائل براہ راست اس کے اپنے دشمنوں کی وجہ سے تھے۔ جب کہ اب وہ یہ خدشہ محسوس کر رہے ہیں کہ مستقبل میں پاکستان کے لیے مسائل چین کے دشمنوں کی وجہ سے بھی ہوں گے۔
ماضی میں سیاسی جماعتوں کا مؤقف رہا ہے کہ گلگت بلتستان کی متنازع حیثیت کی وجہ سے وہاں پر ترقیاتی کام متاثر ہوئے ہیں۔ تاہم نواز خان ناجی اس تاثر کو یکسر مسترد کرتے ہیں۔
نواز خان ناجی کے مطابق گلگت بلتستان معاشی، سماجی اور تعلیمی لحاظ سے چترال اور کوہستان سے زیادہ ترقی یافتہ ہے۔
'گلگت بلتستان کے عوام جمہوری اور عدالتی حقوق سے محروم رہے'
اسلام آباد کے کشمیر انفارمیشن اینڈ انٹرنیشنل ریسرچ سینٹر کے چیئرمین سردار اعجاز افضل خان کہتے ہیں کہ گلگت بلتستان کو عبوری طور پر پاکستان کا پانچواں صوبہ بنائے جانے کے تین پہلو ہیں۔ ان کے مطابق 1949 میں حکومت پاکستان نے کشمیر کی حکومت سے کراچی میں ایک معاہدہ کیا تھا۔ اس معاہدے کے تحت گلگت بلتستان کا انتظام حکومتِ پاکستان کے سپرد کیا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ کشمیر میں اقوامِ متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق استصواب رائے نہیں ہوا۔ اسی لیے گلگت بلتستان کے عوام جمہوری اور عدالتی حقوق سے محروم رہے۔ جس کے بعد سپریم کورٹ آف پاکستان نے حکومت کو یہ حکم دیا کہ فوری طور پر وہاں عدالتی نظام اور جمہوری حقوق دیے جائیں۔
ان کے مطابق اس لحاظ سے اگر حکومتِ پاکستان ایک عبوری صوبے کا اسٹیٹس دے کر تمام حقوق دے دیتی ہے تو اس سے مسئلہ کشمیر پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔
سردار اعجاز افضل خان کا مزید کہنا تھا کہ گزشتہ سال پانچ اگست کو بھارت نے کشمیر کی مخصوص حیثیت کو ختم کرتے ہوئے تمام کشمیر بشمول پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر اور گلگت بلتستان کو بھی بھارت میں ضم کیا۔ اس لحاظ سے دلچسپ امر یہ ہے کہ اب جب پاکستان بھارتی دعوے کے مطابق اس کے علاقے کو اپنا صوبہ بنانے جا رہا ہے تو اس کا ردِ عمل کیا ہوتا ہے۔
گلگت بلتستان کے وزیرِ اعلیٰ کے ترجمان فیض اللہ فراق کہتے ہیں کہ گلگت بلتستان کے عوام عرصہ دراز سے چاہتے ہیں کہ انہیں قانونی تحفظ دیا جائے کیوں کہ گزشتہ سات دہائیوں سے گلگت بلتستان انتظامی طور پر پاکستان کا حصہ ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے فیض اللہ فراق نے بتایا کہ عوام کو یہ بخوبی علم ہے کہ گلگت بلتستان تنازع کشمیر کا ایک فریق ہے۔ لیکن گزشتہ سال پانچ اگست کے بعد جب نئی دہلی نے بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کی اور اسے بھارت میں شامل کر لیا اور اس کے اس اقدام پر دنیا کی تمام طاقتیں خاموش ہیں۔ اقوامِ متحدہ خاموش ہے۔ تو اگر پاکستان گلگت بلتستان کو مسئلہ کشمیر کے تنازع کے حل ہونے تک اپنا پانچواں صوبہ بنانے جا رہا ہے تو یہ خوش آئند بات ہے۔
گلگت بلتستان کو پاکستان کا پانچواں عبوری صوبہ بنائے جانے کے بعد وہاں کے عوام میں یہ تشویش بھی پائی جاتی ہے کہ ضم ہونے کے بعد ٹیکس فری حیثیت اور دوسری مراعات جو انہیں بطور سبسڈی دی جا رہی ہیں، وہ اس کے حق دار ہوں گے یا نہیں۔