پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین اور سابق وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ اُنہیں اُمید تھی کہ نئی فوجی قیادت نے خود کو سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے گزشتہ آٹھ ماہ کے دوران 'پی ٹی آئی مخالف' اقدامات سے لاتعلق کر لیا ہو گا۔
ہفتے کو اپنی ٹوئٹ میں عمران خان کا کہنا تھا کہ ہماری فوج کے بارے میں منفی تاثر اُبھر رہا ہے کیوں کہ موجودہ امپورٹڈ حکومت کو محض کٹھ پتلی سرکار کے طور پر ہی دیکھا جا رہا ہے۔
سابق وزیرِ اعظم کا کہنا تھا کہ "اُمید تو یہی تھی کہ نئی عسکری قیادت تحریکِ انصاف، میڈیا اور ناقد صحافیوں کے خلاف گزشتہ آٹھ ماہ سے جاری باجوہ کے فسطائی ہتھکنڈوں کے سلسلے سے خود کو الگ کر لے گی۔'
عمران خان کا کہنا تھا کہ سینیٹر اعظم سواتی کے ساتھ روا رکھے جانے والے انتقام سے بھرپور جبرو تشدد پر قوم حیرت زدہ ہے کہ اُنہیں کس جرم کی سزا دی جا رہی ہے؟
سابق وزیرِ اعظم کا کہنا تھا کہ اعظم سواتی کے خلاف خود سری اور انتقام پر مبنی اقدامات سے ہماری فوج کی ساکھ جو مضبوط پاکستان کے لیے ناگزیر ہے پر حرف آتا ہے۔
دریں اثنا تحریکِ انصاف خیبرپختونخوا کی پارلیمانی پارٹی سے بذریعہ ویڈیو لنک خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ اگر رواں ماہ عام انتخابات کی تاریخ نہ دی گئی تو پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیاں توڑ دیں گے۔
مونس الہٰی کا دعویٰ: سیاست میں عدم مداخلت کے فوج کے موقت پر شکوک نے جنم لیا: رانا ثناء اللہ
وفاقی وزیرِ داخلہ رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ مونس الہٰی کے بیان سے فوج کی سیاست میں عدم مداخلت کے اعلان پر شکوک و شبہات پیدا ہو گئے ہیں۔
ہفتے کو لاہور میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے وزیرِ داخلہ رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے فوج کی جانب سے وضاحت آنی چاہیے۔
رانا ثناء اللہ نے سوال اُٹھایا کہ مونس الہٰی کو یہ سب کہنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ اس بیان سے اگر جنرل باجوہ کو کوئی نقصان پہنچا بھی ہے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیوں کہ وہ بھرپور ملازمت پوری کر کے ریٹائر ہو چکے ہیں۔
خیال رہے کہ مسلم لیگ (ق) کے مرکزی رہنما مونس الہی نے نجی چینل 'ہم نیوز' کی اینکر مہر بخاری کو دیے گئے انٹرویو میں کہا تھا کہ اُنہیں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے تحریکِ عدم اعتماد کے دوران عمران خان کا ساتھ دینے کے لیے کہا تھا۔
سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے چند روز قبل یومِ شہدا کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ فوج نے بطور ادارہ گزشتہ برس فروری میں یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ اب کبھی سیاست میں مداخلت نہیں کریں گے۔
یاد رہے کہ عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد پر ووٹنگ اپریل2022 میں ہوئی تھی۔
عمران خان کی جانب سے انتخابات کے معاملے پر مذاکرات کی پیش کش پر رانا ثناء اللہ نے کہا کہ سیاست میں مذاکرات کے دروازے کبھی بند نہیں ہوتے۔
اُن کا کہنا تھا کہ سابق وزیرِ اعظم کی اس پیش کش پر نواز شریف اور اتحادیوں سے مشاورت کریں گے۔
جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کو ایکسٹینشن دینا پی ٹی آئی حکومت کی غلطی تھی: اسد قیصر
سابق اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے کہا ہے کہ سابق آرمی چیف جنرل (ر)قمر جاوید باجوہ کو 2019میں ایکسٹینشن دینا پی ٹی آئی حکومت کا غلط فیصلہ تھا اس پر پچھتاوا ہے۔
نجی ٹی وی چینل ڈان نیوز کے پروگرام دوسرا رخ میں ایک انٹرویو کے دوران انہوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ پارٹی میں ہر کسی کو یہ احساس ہوگیا ہے کہ قمر جاوید باجوہ کو ایکسٹینشن دینا غلطی تھی۔
واضح رہے کہ سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ 29 نومبر کو چھ سال کی مدتِ ملازمت پوری ہونے کے بعد ریٹائر ہوگئے تھے۔
پی ٹی آئی کی سابق حکومت نے سال 2019 میں ان کی مدتِ ملازمت میں تین سال کی توسیع کی تھی۔
وزیرِ اعظم شہباز شریف کی پارٹی رہنماؤں کے ساتھ لاہور میں بیٹھک
سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی جانب سے اسمبلیوں سے نکلنے کے اعلان پر وفاق میں حکمراں جماعت بھی سرگرم ہے۔ وزیرِ اعظم شہباز شریف کی زیرِ صدارت لاہور میں پارٹی رہنماؤں کا اجلاس جاری ہے۔
مسلم لیگ (ن)کے ذرائع کے مطابق شہباز شریف عمران خان کی جانب سے نئے انتخابات کے معاملے پر مذاکرات سمیت پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیوں میں تحریکِ عدم اعتماد کے معاملے پر بھی تبادلۂ خیال کریں گے۔
اجلاس میں وفاقی وزیرقانون اعظم نذیرتارڑ ، خواجہ سعد رفیق ، وفاقی وزیر رانا ثناء اللہ ، ایاز صادق ، عطاء اللہ تارڑ شریک ہیں۔