امریکہ, جنوبی کوریا اور جاپان نے گزشتہ ماہ پیانگ یانگ کے تازہ ترین اور سب سے بڑے بین البراعظمی بیلسٹک میزائل کے تجربے کے بعد شمالی کوریا کے اہلکاروں پر پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ یہ عہدے دار ملک کے ہتھیاروں کے پروگراموں سے منسلک تھے۔
امریکی محکمہ خزانہ نے جمعرات کو بتایا کہ شمالی کوریا کے جن عہدے داروں پر پابندیاں لگائی گئی ہیں ان کے نام جون ال ہو ، یو جن اور کم سو گل ہیں ۔ ان عہدے داروں کو یورپی یونین نے اپریل میں پابندیوں کے لیے نامزد کیا تھا۔
ان پابندیوں کے تحت امریکہ میں موجود ان کے اثاثے منجمد ہو جائیں گے جب کہ امریکی شہری ان سے کوئی لین دین نہیں کر سکیں گے۔
امریکہ کی جانب سے شمالی کوریا پر پابندیاں لگانے کا سلسلہ طویل عرصے سے جاری ہے لیکن یہ امریکی اقدام شمالی کوریا کو زیادہ جدید اور زیادہ خطرناک میزائل تیار کرنے کے اپنے پروگرام کو آگے بڑھانے سے باز رکھنے میں زیادہ تر ناکام رہا ہے۔
جنوبی کوریا کی وزارت خارجہ نے سات دیگر افراد پر پابندیوں کا اعلان کیا، جن میں ایک کا تعلق سنگاپور اور ایک تائیوان سے ہے۔ جبکہ ان پابندیوں کا ہدف آٹھ ادارے بھی ہیں۔
وزارت کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ تمام افراد پہلے ہی اسے مریکہ کی طرف سے جنوری 2018 اور اکتوبر 2022 کے درمیان لگائی گئی پابندیوں کا سامنا کر رہے ہیں۔
جاپان نے نئی پابندیوں کے لیے تین اداروں اور ایک فرد کو نامزد کیا ہے۔جاپان کی وزارت خارجہ نے کہا کہ نامزد کیے جانے والے گروپس میں لازارس بھی شامل ہے جس پر شبہ ہے کہ وہ سائبر حملے کرنے میں ملوث ہے۔
دوسری جانب چین اور روس نے اقوام متحدہ کی جانب سے مزید پابندیاں عائد کرنے کی حالیہ کوششوں کو روک دیا ہے اور کہا ہے کہ مذاکرات شروع کرنے اور انسانی سطح پر نقصان سے بچانے کے لیے نرمی کی جانی چاہیے۔
اس صورت حال کے نتیجے میں واشنگٹن کو جنوبی کوریا ، جاپان اور اپنے یورپی شراکت داروں کے ساتھ سہ فریقی کوششوں پر توجہ مرکوز کرنا پڑی ہے ۔
تازہ ترین پابندیاں18 نومبر کو شمالی کوریا کے آئی سی بی ایم میزائل ٹیسٹ کے بعد لگائی گئی ہیں جو اس سال کیے جانے والے ساٹھ سے زیادہ میزائل لانچوں کا ایک نیا ریکاررڈ ہے۔ جب کہ یہ خدشات بھی موجود ہیں کہ شمالی کوریا ان جوہری تجربات کو دوبارہ شروع کر سکتا ہے جسے اس نے 2017 سے معطل کر دیا تھا۔
اس رپورٹ کے لیے معلومات رائٹرز سے لی گئی ہیں۔