ایک نئی ریسرچ سے ظاہر ہوا ہے کہ آب و ہوا کی تبدیلیوں کے باعث سر درد ، ڈیمنشیا، پٹھوں کی متعدد بیماریوں اور پار کسنز جیسے اعصابی امراض کی علامات بد تر شکل اختیار کر سکتی ہیں جب کہ فالج کے کیسز میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
طبی جریدے نیورولوجی کے آن لائن شمارے میں امریکن اکیڈمی آف نیورولوجی کی حال ہی میں شائع ہونے والی ایک تفصیلی تحقیق سے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے فالج کےمرض میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
تحقیقی ٹیم کے سر براہ اور امریکن اکیڈیمی آف نیورولوجی کے رکن اور اوہائیو کے کلیو لینڈ کلینک کے ایم ڈی ڈاکٹر اینڈریو دھاون کاکہنا ہے کہ اگرچہ بین الاقوامی برادری 2100 سے پہلے عالمی درجہ حرارت میں اضافے کو 2 اعشاریہ 7 فارن ہائیٹ تک کم کرنے کی کوشش کر رہی ہے، لیکن دنیا بھر کے ماحول میں پہلے ہی ایسی تبدیلیاں آچکی ہیں جنہیں پلٹنا ممکن نہیں اور جیسے جیسے کرہ ارض گرم ہو گا یہ تبدیلیاں واقع ہوتی رہیں گی ۔
ریسرچ کے مصنف ڈاکٹر اینڈریو کا کہنا ہے کہ اب جب کہ ہم انسانی صحت پر بڑھتی ہوئی گلوبل وارمنگ کے اثرات کا مشاہدہ کر رہے ہیں تو یہ بات انتہائی اہم ہےکہ اعصابی ماہرین یہ اندازہ لگائیں کہ عالمی درجہ حرارت میں اضافے کا اعصابی بیماریوں پر کیا اثر ہو سکتا ہے۔
اس تحقیق کے لیے، محققین نے 1990 اور 2022 کے درمیان آب وہوا کی تبدیلی، آلودگی، درجہ حرارت کی شدت ا اور اعصابی بیماری پر شائع ہونے والی 364 متعلقہ ریسرچز کے تین موضوعات پر تحقیق کی جن میں آلودگی کے اثرات، شدید موسمی واقعات، درجہ حرارت میں اتار چڑھاو اور نیو رو انفیکشن کی ابھرتی ہوئی بیماریاں شامل تھی ۔
محقیقن نے آلودگی کے اثرات پر 289 ، شدید موسمی واقعات اور درجہ حرارت میں اتار چڑھاو پر 38 اور نیورو انفیکشن کی ابھرتی ہوئی بیماریوں پر 37 مطالعات کو اپنی تحقیق میں شامل کیا ۔ وہ تمام جائزے صرف بالغ افراد پر کیے گئے تھے۔
ان مطالعات میں درجہ حرارت کی تبدیلی اور بگڑتی ہوئی اعصابی علامات کے درمیان تعلق کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ ، گرمی کے موسم اور مچھروں سے پیدا ہونے والے انفیکشن کے درمیان تعلق کو واضح کیا گیا تھا جب کہ ہوا سے پیدا ہونے والی آلودگی اور دماغی امراض کی شرح اور شدت کے درمیان تعلقات پر بھی روشنی ڈالی گئی تھی ۔
محققین کو ان مطالعاتی جائزوں کے تجزیے سے معلوم ہوا کہ موسم کے شدید واقعات اور درجہ حرارت کے اتار چڑھاؤ کا فالج کے واقعات اور ان میں شدت، مائیگرین سر درد، ڈیمنشیا کے مریضوں کے اسپتال میں داخل سے تعلق تھا۔
فضائی آلودگیوں سے متعلق جائزوں کے تجزیے سے ، خاص طور پر ہوا میں موجود نائٹریٹ اور باریک ذرات کا ، جنہیں PM 2.5 بھی کہا جاتا ہے ،فالج کے واقعات اور اس کی شدت، سر درد، ڈیمنشیا کے خطرے، اور پارکنسن کی بیماری سے تعلق ظاہر ہوا ۔
دھاون نے کہا، کہ آب و ہوا کی تبدیلی انسانیت کے لیے بہت سے چیلنجز کا باعث بنتی ہے، جن میں سے کچھ کا اچھی طرح سے مطالعہ نہیں کیا جاتا۔
مثال کے طور پر، ہمیں اپنے جائزے میں خوراک اور پانی کے عدم تحفظ سے اعصابی صحت پر اثرات سے متعلق کوئی مضمون نہیں ملا، جن کا واضح طور پر اعصابی صحت اور موسمیاتی تبدیلی سے تعلق ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اس بارے میں مزید ریسرچ کی ضرورت ہے کہ اعصابی بیماریوں کی منتقلی کو کم کرنےکے کونسےطریقے ہو سکتے ہیں ، فضائی آلودگی کیسے اعصابی نظام کو متاثر کرتی ہے، اور آب و ہوا سے متعلق رکاوٹوں کے پیش نظر اعصابی نگہداشت کی فراہمی کو کیسے بہتر بنایا جائے۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ ریسرچز دنیا کے وسائل سے مالا مال خطوں میں کی گئی تھیں اور ان کے نتائج کم وسائل والے ان خطوں میں لاگو نہیں ہوسکتے ہیں جہاں آب و ہوا میں اس طرح کی تبدیلیاں ہونے کا امکان زیادہ ہوسکتا ہے۔