لاہور ہائی کورٹ نے سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی جانب سے حفاظتی ضمانت کے لیے دائر درخواست پر اُنہیں خود عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا ہے۔
بدھ کو عمران خان کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس طارق سلیم شیخ نے کہا کہ اگر عمران خان حفاظتی ضمانت چاہتے ہیں تو رات آٹھ بجے تک عدالت میں پیش ہوں۔ درخواست گزار کی موجودگی کے بغیر حفاظتی ضمانت منظور نہیں کی جا سکتی۔
عمران خان کے وکلا نے عدالت کو بتایا کہ سابق وزیرِ اعظم نومبر میں ہونے والے قاتلانہ حملے کے بعد سے ہی اپنی رہائش گاہ پر موجود ہیں جس پر جسٹس طارق سلیم شیخ نے کہا کہ میں گارڈز بھیج دیتا ہوں یا آئی جی پنجاب سے کہتا ہوں کہ وہ عمران خان کو بحفاظت عدالت لے کر آئیں۔
جسٹس طارق سلیم شیخ نے کہا کہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ عدالتیں رات کو دیر تک کھلی رہتی ہیں، میں آپ کا پابند نہیں ہوں کہ 12 بجے تک یہاں بیٹھا رہوں۔ اگر ضمانت چاہیے تو عمران خان خود عدالت میں آئیں۔
الیکشن کمیشن کے باہر احتجاج کیس میں عمران خان کی عبوری ضمانت خارج
اسلام آباد کی انسدادِ دہشت گردی عدالت نے الیکشن کمیشن کے باہر ہنگامہ آرائی کیس میں سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی عدم حاضری پر اُن کی عبوری ضمانت خارج کر دی ہے۔
وائس آف امریکہ کے نمائندے عاصم علی رانا کے مطابق بدھ کو کیس کی سماعت کے دوران انسدادِ دہشت گردی عدالت کے جج راجہ جواد عباس حسن نے عمران خان کی میڈیکل گراؤنڈز پر استثناٰ کی درخواست خارج کرتے ہوئے اُنہیں بدھ کو ڈیڑھ بجے دوپہر عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا لیکن عمران خان عدالت میں پیش نہیں ہوئے۔
بعدازاں عدالت نے درخواست پر محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے سابق وزیرِ اعظم کی عبوری ضمانت میں توسیع کی درخواست مسترد کر دی۔
خیال رہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے گزشتہ برس اکتوبر میں توشہ خانہ کیس میں قرار دیا تھا کہ عمران خان نے توشہ خانہ سے ملنے والے تحائف سے متعلق غلط بیانِ حلفی جمع کرائے۔
اس فیصلے پر تحریکِ انصاف کے کارکنوں نے الیکشن کمیشن کے باہر احتجاج اور مبینہ طور پر ہنگامہ آرائی کی تھی جس پر مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
سابق وزیرِ اعظم عمران خان نومبر میں خود پر ہونے والے قاتلانہ حملے کے بعد سے ہی لاہور میں اپنی رہائش گاہ میں مقیم ہیں۔
بینکنگ کورٹ میں بھی عمران خان کی حاضری سے استثناٰ ختم، ہائی کورٹ نے 22 فروری تک کارروائی سے روک دیا
اسلام آباد ہائی کورٹ نے بینکنگ کورٹ کو سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی درخواست ضمانت پر 22 فروری سے قبل فیصلہ نہ کرنے کی ہدایت کر دی ہے۔
اس سے قبل اسلام آباد کی بینکنگ کورٹ نے پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان کو ممنوعہ فنڈنگ کیس میں آج ہی عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا تھا۔
بینکنگ کورٹ کی جج رخشندہ شاہین نے عمران خان کی عدالت میں حاضری سے استثنا کی درخواست مسترد کر دی تھی۔
عدالت نے قرار دیا تھا کہ آج عدالتی وقت ختم ہونے سے پہلے عمران خان عدالت میں پیش ہوں ورنہ قانون اپنا راستہ خود اختیار کرے گا۔
بینکنگ کورٹ کا وقت ساڑھے تین بجے تک ہے اور اس دوران عدالت نے پی ٹی آئی کے چیئرمین کو پیش ہونے کی مہلت دی ہے۔
پنجاب میں انتخابات کی تاریخ، ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن سے پیش رفت رپورٹ طلب کر لی
پاکستان کی قومی اسمبلی بدھ کو 'فنانس سپلیمینٹری بل 2023' کی منظوری دے گی جسے منی بجٹ بھی قرار دیا جا رہا ہے۔
مقامی میڈیا کے مطابق عالمی مالیاتی ادارے ( آئی ایم ایف) کی شرائط پر عمل در آمد کے لیے ضمنی فنانس بل میں نئے ٹیکسز شامل کیے گئے ہیں جس کی منظوری سے ملک میں مہنگائی میں مزید اضافے کا اندیشہ ہے۔
وفاقی کابینہ نے منگل کو ہی مذکورہ بل کی منظوری دی تھی۔ کابینہ کو بریفنگ کے دوران بتایا گیا تھا کہ اصلاحات کے نتیجے میں پر تعیش اشیا پر اضافی ٹیکس عائد کیے جا رہے ہیں جب کہ جنرل سیلز ٹیکس میں ایک فی صد اضافہ بھی فنانس بل میں شامل ہے۔
اس وقت سیلز ٹیکس کی شرح 17 فی صد ہے جب کہ اس میں اضافے کے بعد یہ شرح 18 فی صد ہو جائے گی۔
رپورٹس کے مطابق سیلز ٹیکس میں اضافے سے قومی خزانے میں 50 ارب روپے اضافی جمع ہونے کا امکان ہے۔
'منی بجٹ' میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ بھی شامل ہے۔
وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار نے حال ہی میں آئی ایم ایف سے ہونے والے مذاکرات کے بعد 170 ارب روپے کے ٹیکس لگانے کا اعلان کیا تھا۔
وزیرِ اعظم نے منگل کو وفاقی کابینہ کو بتایا تھا کہ حکومت بھرپور کوشش کررہی ہے کہ غریب طبقے پر کم سے کم بوجھ ڈالا جائے۔
عمران خان کے خلاف ممنوعہ فنڈنگ کیس، میڈیا کوریج پر پابندی
پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین اور سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف ممنوعہ فنڈنگ کیس کی سماعت اسلام آباد کی بینکنگ کورٹ کی جج رخشندہ شاہین نے کی۔
بدھ کو ہونے والی سماعت کے موقع پر عمران خان عدالت میں پیش نہیں ہوئے جب کہ انہوں نے طبی بنیادوں پر حاضری سے استثنا کی درخواست دائر کی۔سماعت کے موقع پر سینیٹر اعظم سواتی، شبلی فراز اور فیصل جاوید سمیت دیگر پی ٹی آئی رہنما کمرۂ عدالت میں موجود تھے۔
سماعت سے قبل عدالتی عملے نے سیکیورٹی صورتِ حال کے سبب بینکنگ کورٹ خالی کرنے کی ہدایت کی۔ عدالتی عملے کا کہنا تھا کہ جج کی ہدایت ہے کہ ایک ایک کر کے وکیل عدالت میں پیش ہوں۔
بیکنگ کورٹ کی جج رخشندہ شاہین کمرۂ عدالت میں آئیں تو انہوں نے کہا کہ وہ عدالت میں رش نہیں چاہتیں۔ ایک پٹیشنر اور ایک وکیل کمرۂ عدالت میں موجود رہیں۔ انہوں نے ممنوعہ فنڈنگ کیس کی میڈیا کوریج پر پابندی عائد کرتے ہوئے کمرۂ عدالت میں موجود صحافیوں کو نکلنے کا حکم دیا۔
وائس آف امریکہ کے نمائندے عاصم علی رانا کے مطابق کورٹ میں موجود صحافیوں کا جج کو کہنا تھا کہ "ہم اس کیس کی کوریج کے لیے موجود ہیں، کیا یہ اوپن کورٹ نہیں یا اس کیس کی سماعت کو ان کیمرا قرار دیا جا چکا ہے ؟اس پر جج رخشندہ شاہین کا کہنا تھا کہ ان کی عدالت ہے جیسے وہ چاہیں اسے چلا سکتی ہیں۔
صحافیوں نے جج سے استدعا کی کہ آپ اپنی آرڈر شیٹ کا حصہ بنا دیں کہ یہ آج ان کیمرہ کارروائی ہے۔ صحافی تو خصوصی عدالتوں سے لے کر سپریم کورٹ تک کے کیسز کی کوریج کرتے ہیں۔ تاہم فاضل جج نے سماعت شروع کرنے سے قبل صحافیوں کو کمرے سے نکال دیا۔