امریکہ کی طرف سے کابل میں ایک فضائی حملے میں القاعدہ کے رہنما ایمن الظواہری کی ہلاکت کے چھ ماہ سے زائد عرصے کے بعد، اس دہشت گرد گروپ کی قیادت خاموشی سے ایران منتقل ہو گئی ہے۔
اقوام متحدہ کی ایک نئی رپورٹ میں، جو رکن ریاستوں کی انٹیلی جنس پر مبنی ہے، یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ سیف العدیل ’’اب القاعدہ کا اصل رہنما ہے ۔‘‘
القاعدہ خود 31 جولائی کے حملے کے بعد سے، جس میں الظواہری کی ہلاکت ہوئی تھی، اپنی قیادت کی حیثیت کے بارے میں خاموش ہے ۔ رپورٹ میں خاموشی کی دو وجوہات کی نشاندہی کی گئی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ القاعدہ کی افغان طالبان کے بارے میں حساسیت کی وجہ سے العدیل کی قیادت کا اعلان نہیں کیا جا سکتا۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ اس گروپ کی قیادت کا محل وقوع ایسے سوالات کو جنم دیتا ہے جس کے چیلنجز القاعدہ کے عزائم پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ان چیلنجز میں اس کا حریف دہشت گرد گروپ اسلامک اسٹیٹ بھی شامل ہے۔
امریکہ سمیت مغربی انٹیلی جنس ایجنسیاں العدیل کو الظواہری کے ممکنہ جانشین کے طور پر دیکھتی رہی ہیں، اور مصری اسپیشل فورسز کے اس سابقہ افسر کو متعدد مقامات پر وسیع آپریشنل تجربہ رکھنے والے ایک قابل کمانڈر کے طور پر بیان کرتی ہیں۔
1990 کی دہائی کے اوائل میں، العدیل اس ٹیم کا حصہ تھا جس نے افغانستان، پاکستان اور سوڈان میں جنگجوؤں کو فوجی اور انٹیلی جنس تربیت فراہم کی تھی۔
اس نے القاعدہ سے منسلک مصری اسلامی جہاد، اور صومالیوں کو تربیت دینے میں بھی مدد کی جنہوں نے 1992 سے 1994 تک موغادیشو میں امریکی افواج سے جنگ لڑی تھی۔
امریکہ نے العدیل پر 1998 میں دارالسلام، تنزانیہ اور نیروبی، کینیا میں امریکی سفارت خانوں پر مہلک بم دھماکوں کی منصوبہ بندی میں کردار ادا کرنے کا الزام عائد کیا تھا، جس میں 224 افراد ہلاک اور ہزاروں زخمی ہوئے۔
العدیل القاعدہ کی سینئر لیڈرشپ کونسل، ’مجلس شوریٰ‘ کا بھی طویل عرصے سے رکن ہے، اور اس کے ساتھ ساتھ گروپ کی حطین کمیٹی کا ایک سینئر رکن بھی ہے، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ القاعدہ کی عالمی کارروائیوں کو کنٹرول کرتی ہے۔
اقوام متحدہ کے رکن ممالک کی طرف سے شیئر کی گئی ابتدائی معلومات بھی القاعدہ کی سربراہی کے حوالے سے العدیل کی جانب اشارہ کرتی ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حالیہ مہینوں میں القاعدہ کی پراپیگنڈہ کوششوں میں زیادہ بہتر ی آئی ہے۔
اور کچھ رکن ممالک اس جانب بھی اشارہ کرتے ہیں کہ العدیل القاعدہ سے منسلک کچھ گروپس پر اپنا کنٹرول مضبوط کرنے یا بڑھانے میں کامیاب رہا ہے ۔
خاص طور پر ایک ملک کی انٹیلی جنس ایجنسی نے کہا ہے کہ العدیل القاعدہ کی شام سے منسلک تنظیم حوراس الدین کو براہ راست ہدایات دے رہا ہے، جسے اس کا داماد چلاتا ہے۔
لیکن دہشت گردی کے انسداد کے موجودہ اور سابق مغربی حکام یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ القاعدہ کا کوئی بھی رہنما ایران سے اپنے گروپ کو کس حد تک چلا سکتا ہے جہاں شیعہ مسلک کی حکومت قائم ہے۔
تاہم، بعض امریکی حکام کا کہنا ہے کہ ایران کی شیعہ حکومت اور ایک سنی دہشت گرد گروپ کے درمیان اہم مذہبی اختلافات کے باوجود، ایران ممکنہ طور پر القاعدہ کی مدد کرنے کے لیے زیادہ تیار ہو سکتا ہے۔
امریکہ کے ایک سابق وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے 2021 کے اوائل میں خبردار کیا تھا کہ القاعدہ کا ایک نیا ٹھکانہ اسلامی جمہوریہ ایران ہے۔
پومپیو نے اس وقت ایران پر الزام لگاتے ہوئے کہا تھا کہ تہران نے القاعدہ کو فنڈ اکٹھا کرنے، دنیا بھر میں القاعدہ کے ارکان کے ساتھ آزادانہ طور پر بات چیت کرنے اور بہت سے دوسرے کام انجام دینے کی اجازت دی ہے جو اس سے پہلے یہ گروپ افغانستان یا پاکستان سے کر رہا تھا۔ اب ایران اس کا نیا آپریشنل ہیڈکوارٹر ہے۔
دیگر امریکی حکام طویل عرصے سے یہ کہہ رہے ہیں کہ ایران کا القاعدہ کے ساتھ تعلق ہے اور اس کی نوعیت کچھ لو کچھ دو پر مبنی ہے یعنی تہران القاعدہ کی اس وقت مدد کرے گا جب وہ ایرانی قیادت کے مفاد کے مطابق ہو گا اور دوسری صورتوں میں وہ اس گروپ کے خلاف کارروائی کرے گا۔
امریکہ کے محکمہ دفاع کے انسپکٹر جنرل نے نومبر میں ایک رپورٹ میں ڈیفنس انٹیلی جنس کی معلومات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ العدیل ممکنہ طور پر میدان جنگ میں القاعدہ کی صلاحیتوں کو بہتر بنانے میں دلچسپی رکھتا ہے۔
امریکہ نے العدیل کی گرفتاری یا سزا میں مدد دینے والی معلومات کی فراہمی پر 10 ملین ڈالر کا انعام مقرر کیا ہے۔
وی او اے نیوز