پی ٹی آئی رہنما حماد اظہر کی 51 مقدمات میں راہ داری ضمانت منظور
پشاور ہائی کورٹ نے پاکستان تحریکِ انصاف کے رہنما حماد اظہر کو 51 مقدمات میں راہ داری ضمانت دے دی ہےْ۔
پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ابراہیم خان نے ان کی درخواستوں کی سماعت کی۔
درخواستون کی سماعت کے دوران حماس اظہر کے وکیل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ لاہور، راولپنڈی، فیصل آباد سمیت مختلف اضلاع میں مقدمات درج ہیں۔ ان مقدمات میں ضمانتیں دی جائے۔ 40 روز میں تمام متعلقہ عدالتوں سے رجوع کرلیں گے۔
بعد ازاں پشاور ہائی کورٹ نے درخواستیں منظور کرتے ہوئے 51 مقدمات میں حماد اظہر کو راہ داری ضمانت دے دی۔
عدالت نے حماد اظہر کو ایک لاکھ روپے کے مچلکے جمع کرانے کا بھی حکم دیا جب کہ ان کو ایک ماہ کے اندر متعلقہ عدالتوں میں پیش ہونے کی ہدایت کی گئی۔
حماد اظہر راہ داری ضمانت کے لیے پشاور ہائی کورٹ میں پیش
پاکستان تحریکِ انصاف کے رہنما اور سابق وفاقی وزیرِ حماد اظہر کئی ماہ تک روپوش رہنے کے بعد منظر عام پر آگئے ہیں۔
حماد اظہر پیر کو راہ داری ضمانت کے لیے پشاور ہائی کورٹ میں پیش ہوئے ہیں۔
گزشتہ برس نو مئی کو ہونے والے واقعات کے بعد حماد اظہر کئی مقدمات میں مطلوب تھے اور کئی ماہ سے منظر عام پر نہیں آئے تھے۔
سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس پر سات رکنی بینچ تشکیل، سماعت دو دن بعد ہو گی
سپریم کورٹ آف پاکستان نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججز کی جانب سے لکھے گئے خط کے معاملے پر از خود نوٹس کی سماعت کے لیے سات رکنی بینچ تشکیل دے دیا ہے۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں بننے والے سات رکنی بینچ میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس نعیم اختر افغان شامل ہوں گے۔
سپریم کورٹ بدھ سے از خود نوٹس کی سماعت کا آغاز کرے گی۔
جسٹس تصدق جیلانی کی چھ ججز کے خط پر بننے والے کمیشن کی سربراہی سے معذرت
سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججوں کی جانب سے عدلیہ میں مداخلت کے حوالے سے لکھے گئے خط پر بننے والی ایک رکنی انکوائری کمیشن کی سربراہی سے معذرت کرلی ہے۔
وزیرِ اعظم شہباز شریف کے نام اپنے خط میں سابق چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججوں نے اپنے خط میں سپریم جوڈیشل کونسل سے رجوع کیا تھا جس کے سربراہ چیف جسٹس آف پاکستان ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ معاملہ چوں کہ ایک آئینی ادارے سپریم جوڈیشل کونسل یا خود سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار میں آتا ہے کہ اس لیے اگر میں اس معاملے کی تحقیقات کرتا ہوں تو یہ عدالت کے اختیارات میں مداخلت ہوگی۔