سپریم کورٹ کے چار ججز کو بھی دھمکی آمیز خطوط ملے ہیں: ڈی آئی جی آپریشنز شہزاد بخاری
اسلام آباد ہائی کورٹ کے آٹھ ججز کو دھمکی آمیز خطوط ملنے کے معاملے کے دوران ڈی آئی جی اسلام آباد شہزاد فاروق نے بتایا کہ چیف جسٹس سمیت سپریم کورٹ کے چار ججز کو بھی اسی نوعیت کے خطوط موصول ہوئے ہیں۔
بدھ کو چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس عامر فاروق کی عدالت میں پیشی کے دوران ڈی آئی جی آپریشنز نے بتایا کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سمیت جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس امین الدین کو یکم اپریل کو خط موصول ہوئے۔
اُن کے بقول چاروں خطوط میں پاوڈر پایا گیا اور دھمکی آمیز اشکال بنی ہوئی تھیں۔ خطوط کو کاونٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ کے حوالے کر دیا گیا ہے۔
ججز کے خط کا معاملہ: چیف جسٹس کا فل کورٹ بنانے کا عندیہ
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے عدالتی امور میں خفیہ اداروں کی مبینہ مداخلت سے متعلق اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججز کے خط کی سماعت کے لیے فل کورٹ بنانے کا عندیہ دیا ہے۔
بدھ کو سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ معاملے کی سماعت کے لیے دیگر ججز اسلام آباد میں موجود نہیں تھے اس لیے دستیاب ججز کی بنیاد پر بینچ بنایا۔
جسٹَس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اس وقت کچھ ججز لاہور اور کچھ کراچی میں ہیں۔ ممکن ہے کہ اگلی بار ہم سب ایک ساتھ بیٹھیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ججز کے خط کے معاملے میں ہر موڑ پر سیریسنس ہے۔ وہ باقی ججز سے مشاورت کے بعد حتمی تاریخ کا بتا دیں گے۔
عدالت نے سماعت 29 اپریل تک کے لیے ملتوی کر دی۔
عدلیہ کی آزادی پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا، چیف جسٹس
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے عدالتی امور میں خفیہ اداروں کی مبینہ مداخلت سے متعلق اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کے خط پر از خود نوٹس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ عدلیہ کی آزادی پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ پٹیشن دائر ہونے سے پہلے اخبار میں چھپ جاتی ہے، کیا یہ بھی پریشر ڈالنے کا طریقہ ہے؟
چیف جسٹس نے کہا کہ جس دن ہائی کورٹ کے ججز کا خط آیا اسی روز ججز سے ملاقات کی۔ ہم اس معاملے کو اہمیت نہ دیتے تو کیا یہ میٹنگ رمضان کے بعد نہیں ہو سکتی تھی؟
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ججز کے خط کے بعد ہم وکلا کے منتخب نمائندوں سے ملے۔ ہو سکتا ہے وہ آپ کو پسند نہ ہوں مگر وہ آپ کے جمہوری نمائندے ہیں۔ وکلا سے ملنے کے بعد ہم نے فل کورٹ میٹنگ بلائی، اس سے پہلے چار سال فل کورٹ میٹنگ نہیں ہوئی تھی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ یہ طے ہوا تھا کہ ہم وزیراعظم سے انتظامی سائیڈ پر آفیشل میٹنگ کریں گے۔
اس موقع پر اٹارنی جنرل منصور اعوان نے کہا کہ حکومت پاکستان کی جانب سے وہ وضاحت دینا چاہتے ہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ ججز کے خط کے معاملے کی تحقیقات کے لیے حکومت کوئی اپنا کمیشن بنا رہی ہے، یہ تاثر بالکل غلط ہے۔ حکومت نے ایک لمحے کے لیے بھی نہیں سوچا کسی فیڈرل سیکریٹری سے تحقیقات کرائیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ تحقیقات کے لیے حکومت نے سابق چیف جسٹس کا نام دیا۔ جن دوستوں نے اس پر بات کی انہوں نے شاید کمیشن آف انکوائری ایکٹ نہیں پڑھا نہیں۔
ایکس بندش کیس؛ اسلام آباد ہائی کورٹ نے سیکریٹری داخلہ کو طلب کر لیا
اسلام آباد ہائی کورٹ نے مائیکرو بلاگنگ سائٹ ایکس بندش کے خلاف دائر درخواست پر سیکریٹری داخلہ کو 17 اپریل کو طلب کر لیا۔
چیف جسٹس عامرفاروق نے بدھ کو ایکس کی بندش کے خلاف صحافی احتشام عباسی کی درخواست پر سماعت کی۔ عدالت نے ایکس کی بندش سے متعلق جوائنٹ سیکریٹری داخلہ کی رپورٹ کو غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے برہمی کا اظہار کیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ قیاس پر مبنی رپورٹ ہے جس میں وجوہات بیان نہیں کی گئیں۔ قومی سلامتی کو کوئی خطرہ ہوتو اس کی وجوہات تو بتائیں۔ الیکشن ہو گیا ہے بس اب ختم کریں۔
جوائنٹ سیکریٹری داخلہ نے عدالت کو بتایا کہ سیکیورٹی ایجنسیزکی رپورٹ پر ایکس بند کیا ہے۔ انٹرنیٹ پر اپلوڈ مواد سے امن کو خطرہ تھا۔
چیف جسٹس عامرفاروق نے آئندہ سماعت میں سیکریٹری داخلہ کو پیش ہونے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ جو بھی خطرہ ہے اس سے متعلق وجوہات اور ثبوت تحریری پیش کریں۔ مفروضوں پر مبنی رپورٹ پیش نہ کی جائے۔ سیکرٹری داخلہ سے نہ ہوا تو وزیر اعظم کو بلایا جائے گا۔