اسلام آباد ہائی کورٹ سے اہم نوعیت کے مقدمات دیگر عدالتوں میں منتقل کیے جائیں، سپریم کورٹ میں درخواست
سپریم کورٹ میں بدھ کو دائر ایک درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کی جانب سے لگائے جانے والے الزامات کی انکوائری کے لیے ہائی پاور کمیشن تشکیل دیا جائے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججز نے منگل کو سپریم جوڈیشل کونسل کو ایک خط لکھا تھا جس میں دعویٰ کیا تھا کہ انٹیلی جینس ادارے عدالتی معاملات میں مداخلت کر رہے ہیں۔
ججز کے خط پر انکوائری کے لیے میاں داؤد ایڈووکیٹ کی جانب سے دائر درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی ہے انکوائری کمیشن میں جو بھی مس کنڈکٹ کا مرتکب پایا جائے اس کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے۔
درخواست کے متن کے مطابق ہائی کورٹ ججز کا خط اعترف ہے کہ وہ حلف کے مطابق بے خوف و خطر کام نہیں کر پا رہے اس لیے اسلام آباد ہائی کورٹ ججز انصاف فراہمی جیسا حساس کام اس وقت نہیں کر سکتے۔
درخواست گزار نے سپریم کورٹ سے استدعا کی کہ اسلام آبادہائی کورٹ میں اہم سیاسی نوعیت کے مقدمات زیرِ التوا ہیں اس لیے تمام حساس مقدمات دیگر صوبائی ہائی کورٹس کو منتقل کیے جائیں۔
درخواست گزار کے مطابق ججوں کے خط میں بظاہر پاکستان تحریکِ انصاف پی ٹی آئی کے بیانیے والا ہی تاثر دینے کی کوشش کی گئی ہے جب کہ ججوں کے خط کی بنیاد پر چیف جسٹس ہائی کورٹ اور چیف جسٹس پاکستان کے خلاف سوشل میڈیا پر مہم چل رہی ہے۔
پی ٹی آئی کا ہائی کورٹ کے ججز کے خط کی اوپن کورٹ میں انکوائری کا مطالبہ
پاکستان تحریکِ انصاف نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کے خط کی انکوائری اوپن کورٹ میں کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔
چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر خان اور پارٹی رہنما عمر ایوب نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ہائی کورٹ کے ججز کا سپریم جوڈیشل کونسل کو لکھا گیا خط انتظامی امور پر چارج شیٹ ہے ۔ عدلیہ کی آزادی کے لیے اوپن کورٹ میں اس خط کی انکوائری ہونی چاہیے۔
بیرسٹر گوہر نے کہا کہ ججز نے سیاسی کیسز سے متعلق خوف ناک خط لکھا ہے جس سے نظام ایکسپوز ہو چکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ججز نے اپنے خط میں عام کیسز کا نہیں بلکہ سیاسی کیسز میں مداخلت کا کہا ہے۔ عدلیہ کی آزادی کے لیے اب قوم اور وکلا کو کردار ادا کرنا ہو گا۔
چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ ہر جج ہمارے لیے اتنا ہی اہم ہے جتنا سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے جج ہیں۔ ہم اس معاملے پر قومی اسمبلی میں قرارداد لائیں گے۔
بیرسٹر گوہر نے چیف جسٹس آف پاکستان اور سپریم جوڈیشل کونسل کے اراکین سے اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کے خط پر کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔
بشام میں چینی انجینئرز پر حملے کی تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی بنانے کا اعلان
وفاقی وزیرِ اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے کہا ہے کہ بشام واقعے کی کی تحقیقات کے لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) بنائی جا رہی ہے۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیرِ اطلاعات نے کہا کہ چین ہمیشہ ہر مشکل وقت اور عالمی فورمز پر پاکستان کے ساتھ کھڑا ہوا۔ سی پیک ملک میں معاشی ترقی کا ضامن ہے۔ سی پیک کے باعث ملک میں روزگار کے لاکھوں نئے مواقع پیدا ہوں گے۔
ان کے بقول چین کے شہریوں کی سیکیورٹی کے حوالے سے ایس او پیز موجود ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ دہشت گری کے خاتمے تک چین سے نہیں بیٹھیں گے۔
سپریم جوڈیشل کونسل ایجنسیوں کے نہیں، ججوں کے محاسبے کا فورم ہے: سینیٹر عرفان صدیقی
مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل ایجنسیوں کے نہیں بلکہ ججوں کے محاسبے کا فورم ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججوں کے سپریم جوڈیشل کونسل کو ارسال کیے گئے خط پر ایک ایک بیان میں سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ ججوں نے اپنی شکایت غلط جگہ پہنچائی ہے۔
انہوں نے خط لکھنے والے ججوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ پانچ سال تک جسٹس (ر) شوکت عزیز صدیقی کے حق میں ایک لفظ تک نہ بولنے والوں کے ضمیر اچانک کیوں جاگ گئے ہیں۔ ان ججوں کو دھمکیاں دینے یا دباؤ ڈالنے والے کرداروں کو سزا دینے کا اختیار خود ان ججوں کے پاس تھا۔
عرفان صدیقی کے بقول ان ججز کو چاہیے تھا کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی طرح برملا ایسے کرداروں کا نام لیتے اور عدلیہ پر اثر انداز ہونے کے الزام میں انہیں اپنی عدالتوں میں طلب کرتے۔
انہوں نے الزام بھی لگایا کہ ایسا لگتا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے سینیئر ترین جج نے جونیئر ججوں پر اثر انداز ہو کر یہ خط لکھوایا ہے جس کا محرک کوئی اور ہے۔
سینیٹر عرفان صدیقی کا کہنا تھا کہ ان ججز کا ایک ساتھی جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی حق گوئی کے جرم میں پانچ سال عدالتوں کے دھکے کھاتا رہا۔ کوئی اس کے حق میں ایک لفظ تک نہیں بولا۔ ایک آدھ جج کے سوا سب نے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا سوشل بائیکاٹ کیے رکھا۔