پاکستان کی طرف سے اپنے ہاں موجود لاکھوں افغان پناہ گزینوں کی وطن واپسی کے مطالبات میں حالیہ مہینوں میں شدت آئی ہے لیکن مبصرین اس معاملے پر اسلام آباد کے موقف کو تسلی بخش قرار نہیں دیتے اور ان کے بقول اس ضمن میں کسی بھی طرح کا دباؤ پاکستان کے لیے سیاسی و سفارتی لحاظ سے سود مند ثابت نہیں ہو گا۔
پاکستان کی بری فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنے ملک میں مقیم افغان پناہ گزینوں کی وطن واپسی پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ خطے میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے یہ واپسی کلیدی حیثیت رکھتی ہے جب کہ افغان صدر اشرف غنی نے پاکستان میں رہنے والے پناہ گزینوں کو آئندہ دو سالوں میں واپس لانے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔
ہفتہ کو جرمنی کے شہر میونخ میں سالانہ سکیورٹی کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے جنرل باجوہ کا کہنا تھا کہ پاکستان میں دہشت گردوں کے منظم ٹھکانے موجود نہیں لیکن پہاڑوں، سرحدی علاقوں اور پناہ گزین کیمپوں میں ان کی باقیات کی موجودگی کو رد نہیں کیا جا سکتا۔
ان کا کہنا تھا کہ "یہ وقت ہے کہ ان پناہ گزینوں کو وقار کے ساتھ واپس بھیج دیا جائے۔ اس بات کو یقینی بنانے کا یہی واحد راستہ ہے کہ کوئی بھی ہماری میزبانی اور سرزمین کو افغانستان میں فساد کے لیے غلط استعمال نہ کر سکے۔"
اسلام آباد یہ کہتا آیا ہے کہ دہشت گرد افغان پناہ گزین کیمپوں کو پناہ گاہ کے طور پر استعمال کر رہے ہیں جہاں سکیورٹی فورسز کے لیے کارروائی کرنا مناسب نہیں۔ اس موقف میں گزشتہ اگست میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی افغانستان اور خطے سے متعلق پالیسی کے اعلان کے بعد شدت آئی ہے۔
ادھر افغانستان کے صدر اشرف غنی کا یہ بیان سامنے آیا ہے کہ ان کا ملک پاکستان میں موجود اپنے پناہ گزینوں کو آئندہ دو سالوں میں وطن واپس لائے گا۔
کابل میں منعقدہ ایک تقریب سے خطاب میں ان کا کہنا تھا کہ پناہ گزینوں کی وطن واپسی سے ان الزامات کا خاتمہ ہو جائے گا کہ یہ مہاجرین خطے میں عدم استحکام کی ایک وجہ ہیں۔
بین الاقوامی امور کے ماہر ڈاکٹر اعجاز خٹک کے خیال میں پناہ گزینوں سے متعلق پاکستان کے اس موقف کو بین الاقوامی برادری شاید تسلیم نہ کرے اور اس سے معاملہ مزید الجھنے کا خدشہ بھی ہے۔
اتوار کو وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ مہاجرین اور انتہا پسندی کے معاملے کو "مکس کرنا میرے خیال میں بہت غلط سیاست ہے نہ اس کو کوئی مانتا ہے۔ انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کو اس میں شامل کرنا معاملے کو الجھانا اور خراب کرنا ہے۔۔۔اس سے آپ مہاجرین کے لیے تکلیف بڑھا دیتے ہیں لیکن دنیا اس کو ماننے کو تیار نہیں، اس کا سفارتی و سیاسی فائدہ نہیں مل سکتا۔"
پالیسی سازی خصوصاً مہاجرین سے متعلق امور کے لیے کام کرنے والی ایک غیرسرکاری تنظیم "کوڈ" کے عہدیدار دلاور خان کہتے ہیں کہ سلامتی کے خطرات کو پناہ گزینوں کے ساتھ جوڑنے کی بجائے جو شکوک و شہبات سکیورٹی اداروں کو ہیں ان کی تحقیقات کی جانی چاہیے۔
"ہماری سکیورٹی کا جو مسئلہ پچھلے کئی سالوں سے درپیش ہے اس میں اگر مہاجر ہو یا کوئی قانونی ویزے پر آیا غیر ملکی بھی ہو اگر اس سے سکیورٹی ایجنسیز کو کوئی خطرہ محسوس ہو تو اس سے بھی اس قانون کے تحت نمٹا جائے گا جس سے یہ پاکستانیوں سے نمٹا جاتا ہے۔۔اگر مہاجریں کی بات کرتے ہیں تو اگر سکیورٹی فورسز سمجھتی ہیں کہ اس میں کچھ سلامتی سے متعلق عناصر کیمپوں میں ہیں تو اس بات کی تحقیق ہونی چاہیے۔"
پاکستان میں تقریباً 14 لاکھ سے زائد افغان باشندے باقاعدہ اندراج کے ساتھ بطور پناہ گزین رہ رہے ہیں جب کہ لاکھوں غیر قانونی طور پر مقیم ہیں۔ حکومت نے پناہ گزینوں کے قیام کی مدت میں گزشتہ ماہ ہی مزید دو ماہ کی توسیع کی تھی۔