امریکہ کے وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو شمالی کوریا کے جوہری پروگرام کے خاتمے سے متعلق مزید بات چیت کے لیے پیانگ یانگ پہنچ گئے ہیں۔
امریکی وزیرِ خارجہ جمعے کو علی الصباح پیانگ یانگ پہنچے جہاں ہوائی اڈے پر ان کے استقبال کے لیے شمالی کوریا کی کمیونسٹ پارٹی کے سینئر رہنما اور سابق انٹیلی جنس چیف کِم یونگ چول اور شمالی کوریا کے وزیرِ خارجہ ری یونگ ہو موجود تھے۔
پومپیو 12 جولائی کو سنگاپور میں امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ ان کے درمیان ہونے والی تاریخی سربراہی ملاقات کے بعد پیانگ یانگ کا دورہ کرنے والے پہلے اعلیٰ امریکی عہدیدار ہیں۔
اس سربراہی ملاقات کے دوران امریکہ اور شمالی کوریا نے جزیرہ نما کوریا کو جوہری ہتھیاروں سے پاک کرنے پر اتفاق کیا تھا۔
شمالی کوریا میں لینڈ کرنے سے قبل دورانِ پرواز جہاز میں موجود صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے مائیک پومپیو کا کہنا تھا کہ سربراہی ملاقات کے بعد سے طرفین کے درمیان بات چیت جاری ہے۔
امریکی وزیرِ خارجہ کا کہنا تھا کہ اپنے اس دورے کے دوران وہ ان وعدوں کی تفصیلات طے کرنے اور ان پر جلد عمل درآمد کی کوشش کریں گے جو ان کے بقول دونوں رہنماؤں نے سنگاپور میں ایک دوسرے اور پوری دنیا کے ساتھ کیے تھے۔
صدر ٹرمپ نے کم جونگ ان کی جانب سے اپنا جوہری پروگرام ختم کرنے کی یقین دہانی پر عمل درآمد کی نگرانی مائیک پومپیو کو سونپی ہے۔
مائیک پومپیو پیانگ یانگ میں دو روز قیام کریں گے جس کے دوران ان کی کم جونگ ان اور شمالی کورین حکومت کے دیگر اعلیٰ حکام کے ساتھ بات چیت کے کئی طویل دور متوقع ہیں۔
مائیک پومپیو کا اس سال شمالی کوریا کا یہ تیسرا دورہ ہے۔ لیکن یہ پہلا موقع ہوگا جب وہ پیانگ یانگ میں رات بسر کریں گے۔ اس سے قبل اپنے دونوں دوروں کے دوران وہ شمالی کوریا میں محض چند گھنٹے رکے تھے۔
مائیک پومپیو ایسے وقت شمالی کوریا پہنچے ہیں جب یہ اطلاعات گردش کر رہی ہیں کہ کم جونگ ان کے وعدوں کے برعکس شمالی کوریا بدستور اپنے جوہری اور میزائل پروگرام پر کام جاری رکھے ہوئے ہے۔
امریکی ذرائع ابلاغ نے حال ہی میں امریکی انٹیلی جنس اداروں کی جانب سے حکومت کو پیش کی جانے والی ایک رپورٹ کی بنیاد پر یہ دعویٰ کیا تھا کہ شمالی کوریا نے ایک سے زیادہ خفیہ تنصیبات میں یورینیم کی افزودگی تیز کردی ہے۔
افزودہ یورینیم کو جوہری ہتھیاروں میں ایندھن کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔
امریکی حکومت نے تاحال ان اطلاعات پر باضابطہ طور پر کوئی ردِ عمل نہیں دیا ہے۔