کئی عشروں سے امریکی یونیورسٹیوں میں بڑی تعداد میں غیر ملکی طالب علم داخلہ لیتے رہے ہیں، جس سے امریکی معیشت میں ہر سال اربوں ڈالر کا اضافہ ہوتا ہے۔ لیکن، انٹرنیشنل اسٹوڈنٹس امریکہ کے تازہ ترین اقدامات پر زیادہ خوش دکھائی نہیں دیتے۔ اور اب تعلیم حاصل کرنے کے لیے وہ امریکہ کی بجائے دوسرے ملکوں کا رخ کر رہے ہیں، جو طالب علموں کو پرکشش سہولتیں پیش کرتے ہیں۔
ایک انٹرنیشنل اسٹوڈنٹ، شرستی سنہا بتاتی ہیں کہ انہوں نے امریکہ کے کسی کالج میں آنے کا فیصلہ کیوں کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ اس لیے کیا کہ وہ آزادی جو آپ کو یہاں اس اعتبار سے حاصل ہوتی ہے کہ آپ جو کچھ پڑھنا چاہتے ہیں اس کا انتخاب کر سکیں، اور یہاں پڑھنےکے جو مواقع آپ کو حاصل ہوتے ہیں وہ کہیں اور کم کم ہی ملتے ہیں۔ یہاں کولمبیا میں عالمی راہنماؤں کے فورم کے موقع پر ہمارے پاس وزرائے اعظم اور صدور آتے ہیں اور تقاریر کرتے ہیں۔ یہاں آپ کو نوبیل انعام یافتہ شخصیات کی گفتگو میں شرکت کا موقع ملتا ہے۔
لیکن، یہ انٹرنیشنل طالب علموں کے لئے کشش کی واحد وجہ نہیں ہے۔ ایک اور انٹرنیشنل اسٹوڈنٹ، مینگ لیو کا کہنا ہے کہ امریکی کورسز میں طالب علموں کے لئے زیادہ سرگرم بحث مباحثے شامل ہوتے ہیں۔ کلاس میں طالب علم ایک دوسرے سے زیادہ بحث مباحثہ کرتے ہیں، جب کہ برطانیہ میں تمام وقت لیکچر ہی ہوتے رہتے ہیں۔
اس وقت امریکی یونیورسٹیوں میں دس لاکھ انٹرنیشنل اسٹوڈنٹس زیر تعلیم ہیں۔ لیکن، کیا غیر ملکیوں کے لیے امریکہ میں تعلیم حاصل کرنے کا جذبہ ماند پڑ رہا ہے؟ ماہر تعلیم میری کیتھرین چیس کہتی ہیں کہ طالب علم کہاں جانا چاہتے ہیں، ہم نے گزشتہ دو برسوں میں اس اعتبار سے تبدیلیاں دیکھی ہیں۔
کچھ غیر ملکی طالب علم کسی امریکی کالج یا یونیورسٹی کے تعلیمی اخراجات کی وجہ سے ہچکچاتے ہیں جو ریاستی اسکولوں میں اوسطاً 25 ہزار ڈالر اور پرائیویٹ یونیورسٹیوں میں 70 ہزار ڈالر سالانہ کے لگ بھگ ہوتے ہیں۔ اور یہ خرچ ہی واحد رکاوٹ نہیں ہے۔ امریکی اسٹوڈنٹ ویزا حاصل کرنا بھی ایک چیلنج ہو سکتا ہے۔
ایک انٹرنیشنل اسٹوڈنٹ، ابھیلش پراسن کا کہنا ہے کہ میں بہت سے والدین سے ملا ہوں جو اس سے قبل اپنے بچوں کو یہاں بھیجنا چاہتے تھے۔ لیکن، اب وہ ایسا نہیں چاہتے۔ ویزے کی موجودہ صورت حال، تارکین وطن کے خلاف موجود فضا اور دوسرے بہت سے عوامل، جن کے بارے میں ہمیں کچھ یقین نہیں ہے، یہ چیزیں حصول تعلیم کے لیے امریکہ نہ جانے کا فیصلہ کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
ایک اور انٹرنیشنل اسٹوڈنٹ، ڈولیکا گوپیسٹی کا کہنا تھا کہ میرا خیال ہے کہ ویزے کی اس صورت حال میں سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ اس میں کوئی استقامت اور سیکیورٹی نہیں ہے۔
انٹرنیشنل اسٹوڈنٹ، ابھیلش پراسن کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ یہ غیر یقینی کی کیفیت ہے جو واقعی بہت سے طالب علموں کی اس رائے پر اثر انداز ہو رہی ہے کہ وہ اب امریکہ کو کسی تعلیمی مقام کے طور پر کیسے دیکھتے ہیں۔
اس غیر یقینی کیفیت میں امریکہ کی جانب سے تارکین وطن پر اکثر اوقات سخت سیاسی بحث اور کچھ مخصوص ملکوں کے مسافروں کو ہدف بنانے والی امریکی پالیسیوں کی وجہ سے اضافہ ہو چکا ہے۔
این اے ایف ایس اے ایسوسی ایشن آف انٹرنیشنل ایجوکیٹرز سے منسلک ایستھر برمیر کا کہنا ہے کہ اپنی آمد کے لیے سرد مہری کا اظہار، اور تارکین وطن کے خلاف سخت بیان بازی بد قسمتی سے سیاسی فضا پر چھا رہی ہے۔ اس قسم کے احساسات کو غلط طور پر انٹرنیشنل اسٹوڈنٹس اور اسکالرز کے لئے منفی احساسات کے طور پر سمجھا جا سکتا ہے۔
اسی دوران امریکی اسکولوں میں بڑے پیمانے کی فائرنگ اور غیر ملکیوں کے خلاف جرائم سمیت امریکہ میں تشدد دنیا بھر کی خبروں کی شہ سرخیوں میں شامل رہا ہے۔
اس کا حتمی نتیجہ یہ ہے کہ امریکہ میں انٹرنیشنل اسٹوڈنٹس کے داخلوں کی تعداد کم ہو رہی ہے۔
انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل ایجوکیشن کے سالانہ سروے کے مطابق، امریکہ اب بھی غیر ملکی طالب علموں کے لیے اولین ترجیح ہے۔ لیکن کینیڈا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ جیسے ملک مقبولیت حاصل کر رہے ہیں۔
امریکی محکمہ خارجہ کی عہدے دار، میری رائس کا کہنا ہے کہ ہم جانتے ہیں کہ انٹرنیشنل اسٹوڈنٹس کے پاس اس سلسلے میں کہ ہائر ایجوکیشن کے لیے کہاں جایا جائے، اتنے زیادہ مواقع ہیں جتنے پہلے کبھی نہیں تھے۔
یہ وہ پہلو ہیں جو تعلیم کے بھاری اخراجات اور ان دوسرے عوامل کے ساتھ امریکہ کو کم پرکشش بناتے ہیں۔ لیکن، اس کے باوجود انٹرنیشنل اسٹوڈنٹس کی دلچسپی بدستور بہت زیادہ ہے۔
ایک بین الاقوامی اسٹوڈنٹ، ڈیبرا سیناکا کہنا ہے کہ یہاں ہونے سے دنیا کے دروازے مجھ پر کھل گئے ہیں۔
ایک اور انٹرنیشنل اسٹوڈنٹ، شرستی سنہا کہتی ہیں کہ میں جن لوگوں سے ملتی ہوں، مجھے جو مواقع دستیاب ہوتے ہیں، میرا خیال ہے کہ امریکہ واقعی آپ کو اس لحاظ سے کچھ ایسی بہترین چیزیں دیتا ہے جو صرف امریکی ہی نہیں بلکہ عالمی سطح کی ہوتی ہیں۔
ڈیبرا سنہا کا کہنا ہے کہ مواقع ہر چیز کو بدل دیتے ہیں۔
امریکی یونیورسٹیوں کو جو غیر ملکی طالب علموں کے محصولات پر انحصار کرتی ہیں، توقع ہے کہ مواقع کا یہ احساس برقرار رہے گا۔