اخبار واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں پاکستانی نژاد امریکی مسلمان، اقبال یونس کی مشکلات کو گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد مسلم کمیونٹی کو پیش آنے والے حالات کے تناظر میں تحریر کیا گیا ہے۔
مضمون میں بتایا گیا ہے کہ امریکہ میں اسلام متعارف کرانے کیے لئے کی گئی کوششوں میں یونس کو کس قسم کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ مضمون میں ان کے حوصلے ، برداشت، امنگوں اور آرزؤں کا ذکر ملتا ہے۔
مضمون نگار مشیل بور سٹین کا کہنا ہے کئی سال پہلے امریکہ میں آکر بسنے والے 67 سالہ اقبال یونس، اس وقت امریکہ کا پہلا مستند مسلم ادارہ چلا رہے ہیں جہاںوہ مسلمان علما کی تعلیم اور تربیت کرتے ہیں۔ شمالی ورجینیا میں قائم اس ادارے کا نام انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک تھاٹ ہے۔
اخبار کے مطابق یونس کا نظریہ ہے کہ غیر ملکی علما کو امریکہ بلانے کی بجائے کیوں نہ امریکہ میں تربیت حاصل کرنے والے امام اس معاشرے کی روحانی رہنمائی کر یں۔ ان کا کہنا ہے کہ :ہمیں اسلام کو امریکی معاشرے کے مطابق متعارف کرانے کی ضرورت ہے:۔ تاہم بہت سے مسلمان ان کے اس نظریےسے اتفاق نہیں کرتے۔
سن انیس سو ستر میں امریکہ آنے کے بعد یونس نے امریکہ کی چندمعروف ترین اسلامی تنظیموں کی بنیاد رکھی ، جو اب امریکہ کی چند بڑی مسلم تنظیموں میں شمار کی جاتی ہیں یعنی مسلم اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن اور اسلامک سوسائٹی آف نارتھ امیریکہ۔ اٹلانٹا میں قائم جارجیا ٹیک میں اپنی تعلیم کے دورانِ یونس نے ان تنظیموں کی بنیاد رکھی۔ یونس امریکی طرزِ اسلام کے بانیوں میں سے خیال کئے جاتے ہیں۔ اخبار کے مطابق یہ تنظیمیں اپنے آغاز ہی سے تنازعات کا شکار ہیں۔ انہیں سعودی عرب سے بھیجی گئی رقم سے بنایا گیا۔
ایک سعودی خاندان نے انہیں آٹھ ملین ڈالر کی رقم عطیہ کی۔تاہم کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ان تنظیموں کا تعلق اخوان المسلمین سے جو مسلمانوں کو مغربی اثرات سے نکالنا چا ہتی ہے۔
گزشتہ ایک عشرہ اقبال یونس پر بہت بھاری گزرا۔ ان کے گھر اور دفتر پر چھاپہ مارا گیا ان کے ساتھیوں اور اہل خانہ کو حراست میں رکھا گیا۔ تاہم سرکار ان کے خلاف کچھ بھی ثابت کرنے میں ناکام رہی۔
تقریباً نو سال پہلے مرکزی حکومت کے تفتیش کاروں نے ان کے گھر اور ادارے پر دہشت گردی کے فروغ کے الزام میں چھاپے مارے۔ انکے ادارے پر چھاپے کے دوران یونس اور ان کے ساتھیوں کو ادارے کے اندر چار گھنٹے تک محبوس رکھا گیا۔ اور اس دوران کمپیوٹر، مسوادات اور دیگر اشیا کو قبضے میں لے لیا گیا۔
اخبار لکھتا ہے کہ اسی دوران ، چودہ کے قریب تفتیش کار وں اور پولیس اہلکاروں نے ان کے گھر پر بھی چھاپہ مارا۔ یہ افراد ان کے گھر کا دروازہ توڑ کر اندر داخل ہوئے اور یونس کی بیوی اور اٹھارہ سالہ بیٹی کو ہتھکڑیاں لگا کر حراست میں رکھا گیا۔ ان کی بیٹی حنا بتاتی ہیں کہ یہ افرادانکے گھر میں گھسے اورایک نے پستول تان کر کہا کہ فون نیچے پھینک دو۔، میں تو نائن ون ون کو اطلاع کر رہی تھی کہ کچھ لوگ زبردستی ہمارے میں گھس رہے ہیں۔ ہمیں ہتھکڑیاں پہنا کر چار گھنٹے تک حراست میں رکھا گیا۔ ان افراد نے ہمیں سر ڈھانپنے کی بھی اجازت نہیں دی۔ ،
اخبار کے مطابق گیارہ ستمبر کے دہشت گرد حملوں کے بعد سے مسلمان مذہبی قیادت اور اداروں کو سرکاری تفتیش میں شامل کیا گیا ہے ۔ لیکن سرکار کچھ بھی ثابت کرنے میں ناکام رہی ہے۔
ہوم لینڈ سیکیورٹی کی جانب سے عدالت میں دئے جانے والے بیان کے مطابق، ایف بی آئی کے تفتیش کار ادارے اور گھروں میں دہشت گرد تنظیموں کے لئے ٹرانسفر کی جانے والی بہت بڑی رقوم کا پتہ لگانے آئے تھے۔ ان کے ساتھ ساتھ شمالی ورجینیا کے دوسرے مسلمان اداروں کی بھی چھان بین کی گئی تھی۔
اخبار کےمطابق چھان بین کرنے والے ایک ایف بی آئی کے ایجنٹ کا کہنا تھا کہ یہ سب کچھ غلط ہوا۔ یونس اور اسکے ساتھیوں اور اہل خانہ کی وکالت کرنے والی وکیل نینسی لوک کہتی ہیں کہ آج تک سرکار کچھ بھی ثابت نہیں کر پائی۔ جو چیزیں بھی سرکار نے قبضے میں لیں ان سے کچھ بھی ثابت نہیں ہوا۔ انہیں مقدمے میں شہادت کے طور پر استعمال نہیں کیا گیا، اور یہ تمام اشیا انہیں واپس کردی گئیں۔
جہاں تک ان چھاپوں کے قانونی حیثیت کا تعلق ہے تو یونس خاندان نے اس کے لئے ایک طویل لڑائی لڑی ہے۔ تاہم فیڈرل عدالت کا کہنا تھا کہ ان چھاپوں سے یقیناً یونس خاندان اور باقی مسلمانوں کو تکلیف ہوئی مگر ایجنٹوں نے قانون کے مطابق عمل کیا۔ فیصلے میں لکھا گیا کہ اقبال یونس نے کوئی جرم نہیں کیا۔
ان کے چند حامیوں کے نزدیک ، ضرورت سے زیادہ پرجوش تفتیش کاروں نے ان کے حقوق اور شہرت کو نقصان پہنچایا ہے۔ مگر چند افراد اب بھی ان کے مقاصد اور وفاداری پر شک کرتے ہیں۔
سن انیس سو اکیاسی میں انس نے ایک تھنک ٹینک کی بنیاد رکھی، جس کے لئے ایک سعودی خاندان نے انہیں آٹھ ملین ڈالر کی رقم عطیہ کی۔ ان کی تنظیموں کے اولین رہنماؤں میں سے جمال بارزنجی اب اس تھنک ٹینک کے صدر ہیں ۔
اخبار لکھتا ہے کہ جب ان سے پوچھا گیا کہ اس ادارے کے کیا مقاصد ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ ہم صرف یہ معلوم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ مسلم دنیا کیوں غربت اور جہالت کے اندھیرے میں پھنسی ہوئی ہے۔ اور مسلمان کیوں موجودہ معاشرے میں اپنا حصے کا کردار ادا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
لیکن کچھ افراد کو ان کے مقاصد سے بھی اختلاف ہے۔ مخالفین کا کہنا ہے کہ بارزنجی اور ان کے ساتھیوں کے نظریات مغربی طراز جمہوریت سے مطابقت نہیں رکھتے۔
امریکن اسلامک فورم برائے ڈیموکریسی نامی تنظیم کے بانی زہدی جیسر کہتے ہیں کہ وہ پہلے سے قائم شدہ ان امریکی مسلمان تنطیموں کے نظریات کی مخالفت کرتے ہیں۔ وہ ان تنظیموں کے بین المذاہب اور جمہوریت نواز خیالات کو بازی گری قرار دیتے ہیں۔
اسٹیو ایمرسن امریکہ میں اسلامی تنظیموں کے سب سے بڑے نقاد ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان تنظیموں کا مقصد امریکی اداروں نقصان پہچانا ہے۔
تاہم یونس ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ کبھی بھی دہشت گردوں اور عسکریت پسندوں کے حامی نہیں رہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کا کوئی ارادہ نہیں کہ وہ امریکی اداروں سے ٹکراؤ کی فضا پیدا کریں، اور نہ ہی امریکی مسلمان تنظیمیں امریکہ کو اسلامی نظام میں ڈھالنے کا کوئی ارادہ رکھتی ہیں۔
یونس کہتے ہیں کہ میرے نزدیک تو کوئی بھی مسلمان لیڈر امریکہ کے جمہوری نظام کو بدلنے کا ارادہ نہیں رکھتا۔ دنیا کے دیگر علاقوں کے مسلمان امریکی طرز جمہوریت کو اپنانے کا رادہ رکھتے ہیں۔ اور عرب دنیا میں چلنے والی حالیہ تحریک اسی کا ایک حصہ ہے۔
تاہم وہ اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ ابتدائی مسلمان تارکین وطن نے جو زبان استعمال کی وہ ایک ایسے معاشرے میں جہاں تمام عقائد اور معاشروں کے لوگ مل جل کر رہتے ہیں مطابقت نہیں رکھتی تھی۔ لیکن اس کی وجہ ان کی کم علمی اور جوش تھا۔
برسوں سے اقبال یونس کو جاننے والے جارج ٹاؤن یونیورسٹی کے پروفیسر جان وول کہتے ہیں کہ یونس ایک امریکی ہیں۔ وہ تو کبھی لوٹ کر پاکستان بھی نہیں گئے۔ وہ ایک باریش دانشور آدمی ہیں جو سوٹ پہنتے ہیں اور بیوک کار چلاتے ہیں۔ وہ خواتین سے ہاتھ ملانا بھی برا نہیں سمجھتے ہیں۔
واشنگٹن پوسٹ آخر میں لکھتا ہے کہ اس وقت یونس کے قائم کردہ مستند مذہبی تعلیمی ادارے میں دس کے قریب طالب علم ہیں۔ کم تعداد میں طالب علموں کی بڑی وجہ امام کی کم تنخواہ اور مرتبہ ہے۔
یونس کا خیال ہے ابھی مزید افراد ادارے میں آئیں گےاور اسلام کے متعلق امریکیوں کا نظریہ تبدیل کریں گے۔ ایک عشرے سے جاری شکوک و شبہات کا مقابلہ کرنے کے باوجود یونس کا ایمان اور حوصلہ متزلزل نہیں ہوا۔